بجنور، 14/ دسمبر: شیعوں کے نامور عالم دین مولانا روشن علی روحانی نے سب سے پہلے تو ایران کے صدر سید ابراہیم رئیسی کی شہادت کی پہلی سالگرہ پر ان کو یاد کرتے ہوئے پوری دنیا میں چل رہے مسلم بحران پر پوری دنیا کو نصیحت کی کہ سب سے پہلے تو پوری دنیا کے بڑے لیڈر ایک ساتھ مل کر کام کریں ورنہ یہ دن بھی دور نہیں کہ سستی شہرت اور حمایت کا ڈھونگ کر کے دنیا کے ہر مسلم شہروں کو ہم فلسطین کا غزہ بنا دیں مولانا کا بیان شام میں بڑھتے ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں مسلم رہنماؤں میں بڑھتی ہوئی تشویش کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ کیونکہ ابھی چند روز قبل پوری دنیا نے یہ منظر دیکھا کہ شام میں امریکہ کی بیجا شمولیت اس تنازع میں ایک اہم عنصر رہی ہے، ملک کی پاسداران انقلاب کور (IRGC) اسد حکومت کو فوجی مدد فراہم کرنے میں بھی ناکام ثابت ہوئی۔ شام میں IRGC کی موجودگی نے لبنان اور مغربی کنارے سمیت خطے کے دیگر حصوں میں ہتھیاروں اور اہلکاروں کی نقل و حرکت کو بھی قابل بنایا ہے۔مولانا کی اپیل کا مقصد شام میں فرقہ وارانہ کشیدگی کو کم کرنا اور تنازع کے خاتمہ کو زیادہ جامع اور پرامن حل کو فروغ دینا ہے۔ تاہم، اسد حکومت میں ایران کی نمایاں سرمایہ کاری اور اس کے علاقائی عزائم کو دیکھتے ہوئے، یہ دیکھنا باقی ہے کہ آیا مولانا روشن علی روحانی کی اپیل کا کوئی خاص اثر پڑے گا یا نہیں بالآخر، شام میں تنازع کے پائیدار حل کے لیے ایک جامع اور جامع نقطہ نظر کی ضرورت ہوگی جو اس میں شامل تمام فریقین کے جائز خدشات کو دور کرے۔ عالمی برادری کو شام کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا احترام کرنے والے پرامن اور سفارتی حل کو فروغ دینے کے لیے مل کر کام کرنا چاہیے۔مولانا روشن علی روحانی نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ شام میں شامیوں کے وحشیانہ قتل عام کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کرے۔ مولانا نے کہا کہ شامیوں کے خلاف تشدد میں حالیہ اضافہ، بشمول مساجد، گھروں اور کاروباروں پر حملے، بالکل ناقابل برداشت ہے۔ چونکہ شام میں بڑھتی ہوئی تشدد عدم برداشت اور انتہا پسندی ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے، مولانا کی اپیل بین المذاہب ہم آہنگی، رواداری اور پرامن بقائے باہمی کی ناگزیر ضرورت کی ایک پُرجوش یاد دہانی کے طور پر کام کرتی ہے۔ مولانا نے کہا کہ بین الاقوامی برادری بشمول حکومتیں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور سول سوسائٹی کو تشدد کی مذمت کرنے کے لیے اکٹھا ہونا چاہیے اور شام کیلئے حکام پر دباؤ ڈالنا چاہیے کہ وہ شامیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے فیصلہ کن اقدامات اٹھائیں، اور یہ الزام لگاتے ہوئے کہ وہ تعصب پسند قوتوں پر تشدد کی مذمت کرتے ہیں۔ مولانا نے کہا کہ دنیا کے تمام شیعہ برادری کو معاشرے کے تانے بانے کو تباہ کرنے کے لیے، ہمیں بحیثیت انسان مصیبت زدہ شامی برادری کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے اور اپنے ساتھی انسانوں کے خلاف تشدد اور مظالم کے خاتمے کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ تاہم رپورٹ لکھنے پر ہندوستان کے معروف شیعہ عالم دین مولانا حسن جعفر ترابی صاحب سے رابطہ کرتے رہے لیکن ان کا فون مولانا کلب جواد کی طرح سویچ اوف آ رہا ہے
next post