Talk

راہل گاندھی کی یاترا،ووٹ چوری اور بہار میں ایس آئی آر

شمس آغاز
ایڈیٹر،دی کوریج

ہندوستانی جمہوریت کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ یہاں ہر شہری کو مساوی حقِ رائے دہی
حاصل ہے۔ ’’ایک فرد، ایک ووٹ‘‘ کا اصول اس نظام کی بنیاد ہے، اور یہی اصول ملک کو کثرت
میں وحدت اور عوامی طاقت کا عملی اظہار بناتا ہے۔ لیکن جب اسی بنیادی حق پر شبہات جنم
لینے لگے اورجب عوام کو یہ محسوس ہونے لگے کہ ان کا ووٹ محفوظ نہیں ہے یا کسی پوشیدہ
عمل کے ذریعے اسے بے اثر کیا جا رہا ہے تو یہ نہ صرف ایک فرد کی بے بسی ہے بلکہ
جمہوری ڈھانچے کے متزلزل ہونے کا اشارہ بھی ہے۔
اسی احساس کے تحت رکن پارلیامنٹ اور اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی نے اپنی حالیہ یاترا کا آغاز
بہار سے کیا ہے، جسے ’’ووٹ ادھیکار یاترا‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ یاترا محض ایک سیاسی سفر
نہیں بلکہ عوام کے درمیان جا کر اس بنیادی سوال کو زندہ کرنے کی کوشش ہے کہ کیا ہمارا
ووٹ واقعی اتنی ہی اہمیت رکھتا ہے جتنی ہمارے آئین نے اسے عطا کی ہے؟۔یہ یاترا جمہوری
شعور کو بیدار کرنے کی ایک سنجیدہ کوشش ہےجو عام شہریوں کو یہ یاد دلاتی ہے کہ اس کا
ووٹ صرف ایک پرچی نہیں، بلکہ ایک طاقت ہے۔ اگر ووٹنگ کے عمل کی شفافیت اور
غیرجانبداری پر سوالات اٹھیں گے، تو پورے انتخابی نظام پر عوام کا اعتماد متزلزل ہو جائے گا۔
اس لیے ضروری ہے کہ ہر ادارہ، ہر شہری اور ہر سیاسی جماعت اس حق کے تحفظ کے لیے
بیدار اور مستعد رہے۔ ایک زندہ جمہوریت کی بنیاد عوام کے اعتماد پر قائم ہوتی ہے، اور جب یہ
اعتماد کمزور پڑتا ہے تو پورا نظام خطرے میں آ جاتا ہے۔
یہ یاترا بہار کی زمین پر ایک ایسے وقت میں شروع ہوئی ہے جب ریاست میں انتخابی فہرست
کے حوالے سے سب سے بڑا تنازعہ کھڑا ہوا ہے۔ بہار میں انتخابی کمیشن نے ’’Special
Intensive Revision‘‘ یعنی ایس آئی آر کے نام پر ایک ایسی مشق شروع کی جس کا مقصد یہ
بتایا گیا کہ ووٹر لسٹ کی صفائی اور اسے درست بنایا جائے۔ لیکن اعداد و شمار نے عوام کو
چونکا دیا۔ رپورٹس کے مطابق اس عمل کے دوران تقریباً 65 لاکھ ووٹروں کے نام فہرست سے
خارج کرنے کی بات سامنے آئی۔ انتخابی کمیشن کے مطابق ان میں سے بیشترuntraceable یا
dead ہیں، مگر سیاسی جماعتوں اور عوامی نمائندوں نے اسے ایک بڑے پیمانے پر ووٹ چوری
اور مخصوص طبقات کو حقِ رائے دہی سے محروم کرنے کی کوشش قرار دیا۔ بہار جیسی
ریاست جہاں غریب، مزدور، پسماندہ طبقات اور مائگرینٹس کی بڑی تعداد بستی ہے، وہاں یہ اقدام

سیدھے سیدھے ان طبقات کو انتخابی عمل سے باہر کرنے کے مترادف سمجھا جا رہا ہے۔ مخالفین
نے انتخابی کمیشن پر سخت تنقید کی اور کہا کہ یہ دراصل حکومتِ وقت کی ایماء پر ہوا تاکہ
کمزور طبقے کے ووٹ دبائے جا سکیں۔
راہل گاندھی نے اسی پس منظر میں بہار میں قدم رکھا اور عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی
کہ یہ محض لسٹ کی صفائی نہیں بلکہ ایک منظم ’’حقِ رائے دہی سے محرومی‘‘ کی سازش ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ بہار میں 65 لاکھ ووٹروں کے نام فہرست سے غائب کرنا محض ایک تکنیکی
غلطی نہیں بلکہ جمہوری حق پر ڈاکا ڈالنے کے مترادف ہے۔ وہ عوام سے خطاب کرتے ہوئے بار
بار یہ نعرہ دہراتے ہیں کہ ’’یہ لڑائی کانگریس یا کسی ایک پارٹی کی نہیں، یہ آپ سب کی لڑائی
ہے، یہ جمہوریت کو بچانے کی لڑائی ہے۔‘‘
راہل گاندھی کے اس بیانیے کو مزید تقویت اس وقت ملی جب انہوں نے ملک گیر سطح پر اعداد و
شمار پیش کیے اور کہا کہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں متعدد نشستوں پر ووٹ چوری کی
گئی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ان نشستوں پر کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کی شکست محض
چند ہزار ووٹوں کے فرق سے ہوئی اور یہ وہی جگہیں ہیں جہاں منظم انداز میں ووٹوں میں گھپلا
کیا گیا۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ کچھ حلقوں میں ایک ہی شخص کے نام پر ڈپلیکٹ ووٹ
ڈالے گئے، کہیں ہزاروں ووٹرز ایک ہی پتے پر رجسٹرڈ کر دیے گئے، کہیں فارم 6 کے غلط
استعمال سے ہزاروں جعلی ووٹرز فہرست میں شامل ہوئے، اور کئی جگہ مردہ افراد کے نام بھی
برقرار رکھے گئے تاکہ جعلی ووٹ ڈالے جا سکیں۔ ان کے مطابق ایک تفصیلی تجزیے میں
سامنے آیا کہ 11,965 ڈپلیکٹ ووٹرز، 40,009 جعلی پتے، 10,452 ایک ہی پتے پر رجسٹرڈ
ووٹرز، 4,132 غلط فوٹو اور 33,692 فارم 6 کے تحت جھوٹے اندراج پائے گئے۔ اگرچہ یہ
تمام مثالیں ملک کے مختلف حصوں سے دی گئیں لیکن ان کا مقصد یہ تھا کہ عوام کو یہ احساس
دلایا جائے کہ یہ مسئلہ بہار یا کسی ایک ریاست تک محدود نہیں بلکہ پورے ہندوستانی جمہوریت
پر حملہ ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر واقعی لاکھوں ووٹروں کے نام انتخابی فہرست سے غائب ہو جائیں یا انہیں
کسی بھی طریقے سے ووٹ ڈالنے سے روکا جائے، تو اس کے سیاسی اور سماجی اثرات کیا ہوں
گے؟ سب سے پہلا اور فوری اثر یہ ہوگا کہ عوام کا جمہوری نظام پر اعتماد متزلزل ہو جائے گا۔
ایک عام شہری، جس نے برسوں یہ یقین رکھا کہ اس کا ووٹ تبدیلی لا سکتا ہے، جب یہ جانتا ہے
کہ اس کا نام ہی فہرست میں موجود نہیں، تو وہ خود کو نہ صرف بے بس بلکہ جمہوریت سے کٹا
ہوا محسوس کرے گا۔دوسرا بڑا اثر ان سماجی طبقات پر پڑے گا جو پہلے ہی حاشیے پر ہیں
جیسے غریب، دلت، پسماندہ طبقات، اقلیتیں اور مہاجر (مائگرینٹ) مزدور، جو مسلسل سماجی
انصاف کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اگر یہ طبقات ووٹ کے عمل سے محروم کر دیے گئے، تو
ان کی آواز سیاسی منظرنامے سے غائب ہو جائے گی۔ اس کا مطلب صرف انتخابی خاموشی نہیں
بلکہ سماجی نمائندگی کا فقدان ہوگا۔اس صورتِ حال کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ جمہوریت
ایک نمائندہ نظام ہونے کے بجائے چند طبقات تک محدود ہو کر رہ جائے گی، جہاں طاقتور کی
آواز تو سنی جائے گی لیکن کمزور طبقہ مسلسل دبایا جائے گا۔ یہ صرف انتخابی عمل کا نقصان
نہیں، بلکہ پورے جمہوری ڈھانچے کی روح کو چوٹ پہنچانے کے مترادف ہوگا۔
بہار میں راہل گاندھی کی یاترا کا مقصد صرف یہ نہیں کہ وہ جلسے جلوس کریں، بلکہ وہ ایک
نقشہ بنا کر ریاست کے 20 سے زیادہ اضلاع میں عوام تک پہنچ رہے ہیں۔ سہسرام سے شروع ہو
کر یہ قافلہ گیا، نوادہ، شیخپورہ، مونگیر، بھاگلپور، پورنیہ، ارریہ، سپول، دربھنگہ، مدھوبنی،
مظفرپور، سیتامڑھی، مشرقی و مغربی چمپارن، سیوان، سارن، بھوجپور سے ہوتا ہوا پٹنہ میں ختم

ہوگا۔ اس سفر کا کل فاصلہ 1300 کلو میٹر سے زیادہ ہے اور اسے 16 دنوں میں مکمل کیا جا
رہا ہے۔ یہ راستہ دراصل ایک علامتی پیغام ہے کہ راہل گاندھی عوام کے درمیان جا کر ان سے
براہِ راست جڑنا چاہتے ہیں اور انہیں بتانا چاہتے ہیں کہ یہ جمہوریت بچانے کی لڑائی ہے۔
راہل گاندھی نے اپنی تقاریر میں بارہا یہ نکتہ اٹھایا کہ ’’اگر ووٹ ہی محفوظ نہیں تو جمہوریت کا
کیا مطلب ہے؟‘‘ ان کا کہنا ہے کہ حکومتیں عوام کے ووٹ سے بننی چاہئے نہ کہ طاقت اور
سرکاری مشینری کے کھیل سے۔ وہ عوام کو یہ یاد دلا رہے ہیں کہ یہ ملک بے شمار قربانیوں
کے بعد حاصل ہوا ہے، اور اس کے آئین نے ہمیں یہ حق دیا ہے کہ ہم آزادانہ طور پر اپنی پسند
کی حکومت منتخب کریں۔
لیکن اگر یہی بنیادی حق ہم سے چھین لیا جائےیا اس میں خلل ڈالا جائے، تو یہ نہ صرف آئین
سے غداری ہے بلکہ اُن لاکھوں شہداء کی قربانیوں کی توہین بھی ہے جنہوں نے آزادی اور
عوامی خودمختاری کے لیے اپنی جانیں نچھاور کیں۔راہل گاندھی کا مؤقف ہے کہ جمہوریت
محض ووٹنگ کے دن ایک پرچی ڈالنے کا نام نہیں بلکہ ایک مسلسل جدوجہد ہے، جس میں ہر
شہری کی شمولیت، آگاہی اور آواز شامل ہے۔ اگر ووٹ کے تقدس کو پامال کیا گیا، تو یہ
جمہوریت کی بنیادوں کو متزلزل کر دےگا اور ایک عام شہری کی امید، اعتماد اور حق بری طرح
متاثر ہوں گے۔
یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ بہار کی سرزمین ہمیشہ بڑی سیاسی تحریکوں کا مرکز رہی
ہے۔ جے پرکاش نارائن کی تحریک نے پورے ملک کو بدل ڈالا تھا، اور آج پھر اسی بہار کی
دھرتی سے ایک نئی صدا بلند ہو رہی ہے۔ ووٹ کے حق کی یاترا اس روایت کو آگے بڑھا رہی
ہے اور عوام کو یہ احساس دلا رہی ہے کہ ان کا ووٹ ہی ان کی طاقت ہے۔
موجودہ حالات میں جب انتخابی اصلاحات کے نام پر لاکھوں لوگوں کو ووٹ ڈالنے سے محروم
کرنے کی بات ہو رہی ہے، جب بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر دھاندلی کے الزامات لگا
رہی ہیں، تب یہ یاترا ایک عوامی بیداری کی مہم بن کر ابھری ہے۔ یہ عوام کو جھنجھوڑ رہی ہے
کہ اگر آج آپ نے اپنی خاموشی برقرار رکھی تو کل آپ کی آواز ہمیشہ کے لیے دب سکتی
ہے۔یوں کہا جا سکتا ہے کہ بہار کی یہ یاترا محض سیاسی سرگرمی نہیں بلکہ جمہوریت کی بقا
کی جدوجہد ہے۔ یہ عوام کو یاد دلا رہی ہے کہ ’’ایک فرد، ایک ووٹ‘‘ صرف ایک نعرہ نہیں بلکہ
ہمارے آئین کا بنیادی اصول ہے۔ راہل گاندھی اور ان کی یاترا یہ پیغام دے رہی ہے کہ اس حق کی
حفاظت کے لیے سب کو ایک ساتھ آنا ہوگا، کیونکہ اگر ووٹ چوری ہو گیا تو جمہوریت کا وجود
ہی خطرے میں پڑ جائے گا۔

Related posts

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

Awam Express News

اخلاق اور انسانیت،، سلوک و حسن سلوک !! تحریر: جاوید بھارتی

Awam Express News

مذہب کی بنیاد پر ریزرویشن نہیں تو مذہب کی بنیاد پر پابندی کیوں ؟ (جب جاگو تبھی سویرا)

Awam Express News