Delhi-NCR Press Release

اردو کی ترویج و ترقی کا انحصار اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد پر ، مادری زبان کا تحفظ ہم سب کی ذمہ داری

غالب اکیڈمی، نئی دہلی میں منعقدہ عالمی یوم اردو کی پروقار تقریب میں مقررین کا اظہار خیال
نئی دہلی۔ اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے زیر اہتمام 9 نومبر کو غالب اکیڈمی بستی حضرت نظام الدین میں عالمی یوم اردو کی پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ اس موقع پر مقررین نے کہا کہ اردو ہماری مادری زبان ہے، یہ کسی مخصوص مذہب کے ماننے والوں کی نہیں بلکہ تمام مذاہب کے پیروکاروں کی زبان ہے۔ لہٰذا اہل اردو کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے تحفظ اور فروغ کی کوشش کریں۔ اس موقع پر حسب روایت ایک وقیع مجلے کا اجرا ہوا جو کہ اس عہد کے جید صحافی عالم نقوی کی حیات و خدمات پر شائع کیا گیا ہے۔
’فروغ اردو کی عملی تدبیریں‘ کے زیر عنوان منعقد ہونے والے قومی سمپوزیم میں ماہر اقبالیات پروفیسر عبدالحق نے صدارتی تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اردو زبان میں قومی سرمایہ اور ہمارا بہت بڑا مذہبی سرمایہ بھی موجود ہے۔ ہمیں اس کی بھی حفاظت کرنی ہے اور اردو زبان کی بھی کرنی ہے۔ انھوں نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ ہم فروغ اردو کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کے سربراہ اور اس تقریب کے روح رواں ڈاکٹر سید احمد خاں نے استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے اس با ت کا جائزہ لیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ اردو تعلیم کا سلسلہ کمزور ہو گیا۔ اردو گھرانوں سے اردو کیوں ختم ہوتی جا رہی ہے۔ انھوں نے اردو اخبارات کی اشاعت میں مسلسل گراوٹ اور قارئین کی تعداد میں کمی پر اظہار تشویش کیا اور عوام سے اپیل کی کہ وہ اردو سے محبت کا عملی ثبوت دیں۔انہوں نے مزید کہا کہ اردو کی ترویج و ترقی کا انحصار اردو اسکولوں کی تعداد پر ہے۔ جن ریاستوں میں اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں اردو پھل پھول رہی ہے۔ دہلی میں کچھ اردو میڈیم اسکولوں کا بند ہونا اور اردو کی تنظیموں کی تحریکات میں مسلسل کمی آنا بہت ہی تشویش ناک ہے، حالانکہ اردو میڈیم اسکولوں کی تعداد میں اضافہ لازمی ہے۔
بزرگ ادیب اور قلم کار پروفیسر محسن عثمانی نے یوم اردو اور یوم اقبال کی مناسبت سے گفتگو کرتے ہوئے اقبال کے ایک شعر کی تشریح کی اور اردو طلبہ سے گزارش کی کہ وہ اقبال کو پڑھیں اور اس کے ساتھ اردو کے متقدمین ادبا وشعرا کی تخلیقات کا مطالعہ بھی کریں تاکہ ان کے علم کے ذخیرے میں اضافہ ہو۔ پروفیسر اخترالواسع نے کہا کہ اردو کا تعلق معدے سے نہیں بلکہ دل سے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اردو کی زبوں حالی کے لیے دوسروں کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنے رویے پر غور کرنا چاہیے۔ سینئر صحافی اور ادیب معصوم مرادآبادی نے کہا کہ اردو کی زبوں حالی کے لیے ہم صرف غیروں کو قصوروار قرار نہیں دے سکتے۔ ہماری بے حسی نے شمالی ہندوستان میں اردو کو خود اپنے بچوں کے لیے اجنبی بنایا ہے۔ ہمیں اپنا احتساب کرنا چاہیے کہ ہم نے کس طرح اپنی زبان اور تہذیب کو بیگانہ بنایا ہے۔ انھوں نے کہا کہ جب تک اردو تعلیم ہمارے گھروں میں شامل نہیں ہوگی اس وقت تک صورت حال تبدیل نہیں ہوگی۔ سینئر صحافی و ادیب سہیل انجم نے پروگرام کی نظامت کرتے ہوئے کہا کہ آج کا دن جہاں ہمیں خوشی و مسرت کے اظہار کا موقع دیتا ہے وہیں یہ ہمیں خود احتسابی کی دعوت بھی دیتا ہے۔ ہم یوم اردو اور جشن اردو منا کر جہاں اردو سے محبت کا اظہار کرتے ہیں وہیں ہمیں اس کا جائزہ لینے کی بھی ضرورت ہے کہ کیا ہم اردو سے محبت کے دعوے میں کھرے ہیں اور کیا واقعی عملی اعتبار سے اردو سے محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اردو سے محبت کرنے والے ہر شخص کو چاہیے کہ وہ خود اردو پڑھے، اپنے بچوں کو پڑھائے اور ہر حال میں کم از کم ایک اردو اخبار ضرور خردے۔ ڈاکٹر سید فاروق نے اس بات پر زور دیا کہ ہمیں گھر گھر اردو تعلیم کا بندوبست کرنا چاہیے۔ مولانا محمد رحمانی نے کہا کہ اردو کے فروغ کی کوشش کوئی اور نہیں بلکہ اردو والوں کو ہی کرنی ہوگی۔ جب تک اردو والے اس میدان میں عملی طور پر سرگرم نہیں ہوں گے اردو کا فروغ نہیں ہو سکتا۔ دوحہ قطر سے آنے والے مہمان اعزازی  ڈاکٹر وصی الحق وصی نے اردو زبان پر اپنی نظم پیش کی۔ مولانا علیم الدین اسعدی نے اردو کی موجودہ صورت حال اور اس کے تعلق سے اہل اردو کے رویے کا جائزہ لیا۔ ممبئی سے آنے والے یاسین مومن نے کہا کہ مہاراشٹر میں اردو تعلیم کا سب سے اچھا نظام ہے۔ ڈاکٹر عبد الحیی خان، مولانا سراج الدین ندوی اور دیگر مقررین نے بھی اظہار خیال کیا۔
اس موقع پر اردو کے سلسلے میں نمایاں خدمات انجام دینے والی تقریباً تین درجن شخصیات کو میمنٹو، شال اور سرٹیفکیٹ پیش کیا گیا۔ جبکہ متعدد نئی کتابوں اور سالوں کا اجرا عمل بھی میں آیا اور چند طلبہ کو دسویں اور بارہویں جماعت میں نمایاں کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر حوصلہ افزائی ایوارڈز دیے گئے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی درجہ چہارم کی طالبہ انعم فاطمہ نے اردو پر ایک نظم سنائی۔ متین امروہوی اور دیگر نے اپنا کلام پیش کیا۔ نیشنل کوآرڈی نیٹرس میں معروف صحافی جاوید اختر، محمد عارف اقبال، خیال انصاری، مولانا آزاد جھنڈانگری، اسرار احمد اُجینی، ڈاکٹر غیاث الدین صدیقی، مبثوث احمد، محمد اویس، ڈاکٹر فیضان احمد صدیقی، عبداللہ ابن اسرار اجینی، ندیم عارف، محمد حنیف اعظمی، حکیم محمد مرتضیٰ دہلوی، حکیم نعیم رضا اور محمد عمران قنوجی شامل ہیں۔ اہم شرکاء میں ڈاکٹر قمرالدین ذاکر، ڈاکٹر ارشد غیاث، اشرف میواتی، ڈاکٹر مشتاق صدف، ڈاکٹر سلیم قدوائی، اشرف بستوی، وفا اعظمی، ڈاکٹر حبیب اللہ، عبدالحلیم خاں، محمد خلیل، فیضان اسلم، ڈاکٹر عبدالغفار ندوی، ڈاکٹر سیّد احمد اقبال، اظہار الحسن، وسیع الرحمن عثمانی، محمد تسلیم راجا، ابونعمان، محمد گلزار، اسد آفتاب، ڈاکٹر بدرالاسلام کیرانوی، ڈاکٹر فرمان علی، ڈاکٹر محمود عالم، ڈاکٹر سیّد یاسر کیرانوی، سیّد اعجاز حسین، حکیم اعجاز احمد اعجازی، حکیم عزیر بقائی، محمد ندیم، صادق شروانی، خالد خان، حکیم عطاء الرحمن اجملی، ڈاکٹر آفتاب ضیاء لودھی وغیرہ شامل ہیں۔ آخر میں ایڈووکیٹ شاہ جبیں قاضی اور ڈاکٹر عبدالمجید علیگ نے سامعین کا شکریہ ادا کیا۔
اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن کی طرف سے منعقدہ ’عالمی یوم اردو‘ کی تقریب میں مندرجہ ذیل قرارداد منظور کی گئی
’’یہ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ ملک گیر سطح پر اور خاص طورسے شمالی ہند میں اردو تعلیم کی صورت حال نہایت ابتر ہے۔ ایک طرف جہاں اردو فرقہ پرست اور فسطائی طاقتوں کے نشانے پر ہے تو وہیں خود اردو والوں کا رویہ اپنی زبان کے ساتھ اچھا نہیں ہے۔ اجلاس محسوس کرتا ہے کہ اردو کی سب سے ابتر صورت حال ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں ہے جہاں سرکاری سطح پر لاکھوں پرائمری اسکول ہیں مگر ان میں ایک بھی اردو میڈیم اسکول نہیں ہے۔اترپردیش سرکار نے اردو کی تعلیم وتدریس کے تمام راستے مسدود کررکھے ہیں اور اسی کا نتیجہ ہے کہ پوری ریاست میں اردو تعلیم کا نظام درہم برہم ہوگیا ہے۔ اترپردیش اردو اکادمی بھی کئی برس سے معطل پڑی ہوئی ہے۔ تقریباً یہی صورت حال دہلی، بہار، راجستھان کی بھی ہے۔ جبکہ یہ وہ ریاستیں ہیں جو ماضی میں اردو زبان او ر تہذیب کا مرکز ہوا کرتی تھیں۔ اترپردیش کی گزشتہ حکومتوں میں جن اردو اساتذہ کی بھرتی ہوئی تھی وہ اسکولوں میں اردو طلبا نہ ہونے کی وجہ سے دیگر دوسرے کام کررہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین سرکاری اسکولوں میں سہ لسانی فارمولے کے تحت اپنے بچوں کو مادری زبان اردو میں تعلیم دئیے جانے پر اصرار کریں۔ اترپردیش میں اردو میڈیم اسکولوں کی منظوری پر جو پابندی عائد ہے وہ فوری طورپر ہٹائی جائے اور صوبے میں اردو تعلیم کا نظام بحال کیا جائے۔ اس کے ساتھ ہی اردو والوں کو چاہئے کہ وہ اپنا کام کاج اردو زبان میں کریں۔ اپنے بچوں کو اردو تعلیم دلائیں۔ اردو کتابیں، اخبارات ورسائل خریدیں اور ان تنظیموں کے ساتھ تعاون کریں جو اردو تعلیم اور تہذیب کے فروغ میں سرگرم ہیں۔ یادرکھئے کہ اردو زبان سے محرومی اپنی تہذیب سے محرومی کے مترادف ہے۔یہ اجلاس ان تمام افراد اور تنظیموں کا شکریہ ادا کرتا ہے جو تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اردو کو زندہ کرنے کی تحریک میں سرگرم عمل ہیں۔‘‘

Related posts

حالات حاضرہ پر آل انڈیا تعلیمی و ملی فاؤنڈیشن کے مرکزی دفتر میں ایک اہم نششت کا اہتمام

Awam Express News

جمیعۃ العلماء پوجا کالونی کا اصلاح معاشرہ اجلاس کا دوسرا پروگرام کا انعقاد

Awam Express News

 ’’کے ایم سی سی‘‘کی جانب سے انڈیا اسلامک کلچر سینٹرل دہلی میں افطار پارٹی کا اہتمام

Awam Express News