سرفرازاحمدقاسمی حیدرآباد
رابطہ : 8099695186
بھارت میں مسلمانوں کے لئے زمین تنگ کی جارہی ہے،تعلیمی،تنظیمی اور عدالتی سطح پر منظم طریقے سے انھیں ہراساں کیا جارہاہے،جمیعت علمائے ہند کے صدر اور حضرت الاستاذ مولانا ارشد مدنی صاحب نے گزشتہ دنوں جمیعت کے ہیڈ کوارٹرس آئی ٹی او دہلی میں ایک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا ہے،جس کی مثال الفلاح یونیورسٹی ہے،یہ یونیورسٹی دہلی دھماکے کی تحقیقات کے بعد سے راڈار پر ہے،انہوں نے کہا کہ امریکہ کے نیویارک میں زہران ممدانی میئر منتخب ہو سکتے ہیں،صادق خان لندن کے میئر بن سکتے ہیں لیکن ہندوستان کے مسلمان یہاں کسی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلر بھی نہیں بن سکتے،دنیا سمجھتی ہے کہ مسلمانوں کو ختم کیا جارہا ہے لیکن میں یہ نہیں مانتا،آج ایک مسلمان ممدانی نیویارک کا میئر بن سکتا ہے،ایک خان لندن کا میئر بن سکتا ہے،جبکہ ہندوستان میں کوئی بھی یونیورسٹی کا وائس چانسلر تک نہیں بن سکتا اور اگر کوئی بنتا بھی ہے تو اسے جیل بھیج دیا جاتا ہے،جیسے اعظم خان کو دیکھ لیجئے،مولانا مدنی صاحب کا یہ بیان سوشل میڈیا پر وائرل ہو گیا اور قومی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق ان کے اس بیان کے بعد حکومت کے ایوانوں اور سیاسی حلقوں میں ہلچل مچ گئی،انہوں نے کہا کہ آج ایک مسلمان نیویارک یا لندن کا میئر بن سکتا ہے لیکن ہندوستان میں ایک مسلمان کسی یونیورسٹی کا وائس چانسلر بھی نہیں بن سکتا،مولانا مدنی نے مزید کہا کہ آزادی کے 75 سال گزرنے کے باوجود مسلمانوں کو تعلیم، قیادت اور انتظامی ڈھانچوں میں ترقی کرنے سے منظم طریقے سے روکا گیا،حکومت مسلمانوں کے قدموں کے نیچے سے زمین کھینچنا چاہتی ہے اور بڑی حد تک اس میں وہ کامیاب بھی ہو چکی ہے،آج مسلمانوں کا حوصلہ توڑ دیا گیا ہے،حکومت مسلمانوں کو منظم انداز میں کچلنے کی کوشش کررہی ہے،اس بات کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ مسلمان کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں،اگر کوئی مسلمان کسی طرح وائس چانسلر بھی بن جائے تو اسے فوری طور پر جیل بھیج دیا جاتا ہے،انہوں نے کہا کہ الفلاح میں کیا ہو رہا ہے؟ الفلاح یونیورسٹی کے مالک جیل میں سڑرہے ہیں اور کسی کو معلوم نہیں کہ وہ وہاں کب تک رہیں گے؟ یہ کس قسم کا عدالتی نظام ہے؟ جو کسی شخص کو مسلسل قید میں رکھتا ہے یہاں تک کہ اس کے خلاف ابھی مکمل طور پر کوئی جرم ثابت بھی نہیں ہوا ہے۔حکومت اس بات کو یقینی بنارہی ہے اور اسکے لئے پورا زور لگا رہی ہے کہ ہندستان کا مسلمان اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔
انکے اس بیان کو جہاں کانگریس پارٹی سے تائید حاصل ہوئی ہے کانگریس پارٹی کے لیڈر اور سابق ایم پی ادت راج نے کہا کہ مسلمانوں کے ساتھ ملک میں جانبدارانہ اور امتیازی سلوک کیا جارہا ہے، انہوں نے کہا کہ الفلاح یونیورسٹی میں کوئی ایک شخص دہشت گرد سرگرمی میں ملوث ہوسکتا ہے لیکن اس کے لیے پوری یونیورسٹی کو نشانہ بنانا افسوسناک ہے،اگر کوئی مالیاتی بے قاعدگی ہے تو اس کی ازروئے قانون جانچ ہونی چاہیے،لیکن مسلمانوں کے مکانات کو بلڈوزر سے منہدم کرنا باعث حیرت ہے،امریکہ سے ہندوستان کا تقابل کرتے ہوئے ادت راج نے کہا کہ امریکہ اس لیے بھی عظیم ہے کہ وہاں کسی کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوتا،کانگریس لیڈر نے دلیل پیش کی کہ یہ مسئلہ مسلمانوں سے بھی تجاوز کر گیا ہے،دلت اور دیگر پسماندہ طبقات بھی متاثر ہورہے ہیں،ملک میں موجود تقریبا 40 مرکزی یونیورسٹیوں میں ایک بھی دلت وائس چانسلر نہیں ہے،ادت راج نے مزید کہا کہ ملک،مشکل حالات سے دوچار ہے اور خطرناک دور سے گزررہا ہے،دلت،او بی سی،مائنارٹیز اور آدیواسی تنظیموں کے وفاق (ڈوما) کے صدر ڈاکٹر ادت راج نے دعوی کیا کہ ملک بہت ہی خطرناک دور سے گزر رہا ہے اور ملک میں آئین کو آہستہ آہستہ ختم کیا جارہا ہے،اپنی رہائش گاہ پر آئندہ 30 نومبر کو ہونے والی منوواد کے خلاف ‘تحفظ آئین’ ریلی پر خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلے ووٹ کی طاقت برابر تھی یعنی ایک ووٹ کی طاقت جو بڑے آدمی کی تھی وہی طاقت چھوٹے آدمی کی تھی لیکن بہار میں حالیہ اسمبلی انتخاب کے بعد دلت،مسلم کے ووٹ کی طاقت چلی گئی،انکے ووٹ کی طاقت اب ختم ہو چکی ہے،انہوں نے دعوی کیا کہ کوئی بھی انسان دلت یا بہوجن سماج اپنی مرضی سے نہیں بنا ہے،بلکہ منواد نظام نے انہیں بہوجن سماج بننے پر مجبور کیا ہے، انہوں نے سوال کیا کہ کیا ووٹ کی چوری کسی مسلم سماج نے کی ہے ؟یا دلت سماج نے کی ہے؟ ان میں سے کسی نے نہیں کی ہے تو پھر اس کے بارے میں کیوں بات نہیں کی جاتی؟ ملک میں نفرت کا ماحول اور خراب صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ یہ جاننا ضروری ہے انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے دعوی کیا کہ ملک میں جو خراب ماحول ہے اس کا ذمہ دار منوواد ہے اور اس نظام میں ملک ہرگز ترقی نہیں کرسکتا۔سماجوادی پارٹی کے قائد گھنشیام تیواری نے کہا کہ وزیراعظم مودی کو اس سلسلے میں پریس کانفرنس کے ذریعے وضاحت کرنی چاہیے،بی جے پی لیڈر محسن رضا نے مولانا مدنی پر تنقید کرتے ہوئے دہرا معیار اختیار کرنے اور ملک کے مسلمانوں کو لوٹنے اور مسلمانوں کے نام پر سیاست کرنے کا الزام عائد کیا،بی جے پی کے ایک اور لیڈر یاسر جیلانی نے بھی مولانا مدنی کے بیان پر تنقید کی،یاسر جیلانی نے الفلاح یونیورسٹی کے بانی اور اعظم خان کے خلاف حکومت کی کاروائیوں کو حق بجانب قرار دیا اور کہا کہ یہ دونوں مختلف جرائم میں ملوث ہیں،مرکزی حکومت تمام طبقات کو ساتھ لے کر چل رہی ہے،
اس حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ جب سے مرکز میں مودی کی زیر قیادت 2014 میں حکومت تشکیل پائی تھی،اس کے بعد سے ہندوستان بھر میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کا عرصہ حیات تنگ کرنے کا سلسلہ منظم انداز میں شروع کردیا گیا، کئی گوشے اس معاملے میں متحرک ہو گئے تھے جو لگاتار مسلمانوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور انہیں دوسرے درجے کا شہری بنانے کی پوری کوشش کررہے ہیں،افسوس کی بات یہ ہے کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ دینے والی مودی حکومت ایسے عناصر کی سرکوبی کرنے کے بجائے ان کی حوصلہ افزائی کررہی ہے،ان کی راست یا بالواسطہ طور پر مدد کی جارہی ہے جس کے نتیجے میں انکے حوصلے بلند ہوتے چلے گئے اور اب وہ کھلے عام قانون و دستور کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دھڑلے سے ایسے اعلانات کررہے ہیں،جیسے اقتدار اور حکومت انہی کے ہاتھ میں ہو،وہ جو چاہیں اور جب چاہیں فیصلے کر سکتے ہیں اور ان کے فیصلے سارے ملک کے لئے لازمی ہوں گے،گزشتہ 11 برس میں ایک ایسا سیاسی ماحول پیدا کیا گیا ہے جس میں مذہبی اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے تعلق سے امتیازی رویے کو فروغ دیا جا رہا ہے،2014 کے بعد سے ملک میں قومی سطح پر اور ریاستوں میں جتنے بھی الیکشن ہوئے ہیں ہر بار مسلمانوں کی قانون ساز اداروں میں نمائندگی منظم انداز میں گھٹائی گئی ہے،ملازمتوں میں مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی کی جارہی ہے،جہاں کہیں مسلمان برسر روزگار ہیں،انکے روزگار کو نشانہ بنانے سے بھی گریز نہیں کیا جارہا ہے اور حد تو یہ ہے کہ اب اقلیتی تعلیمی اداروں کو بھی نشانے پر لا دیا گیا ہے،انکے اقلیتی موقف کو ختم کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں تو اقلیتی طلبہ کو تعلیمی اسکالرشپس تک بند کردیے گئے ہیں،اسکے باوجود یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ سب کو ساتھ لے کر کام کیا جارہا ہے اور ملک تیز رفتار سے ترقی کررہا ہے،ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کو تعلیمی،سیاسی اور معاشی ذرائع سے محروم کرتے ہوئے حق تلفی کی جارہی ہے اور ملک کی ترقی کے دعوے کیے جا رہے ہیں،جو مضحکہ خیز ہی کہے جا سکتے ہیں اس صورتحال کو دنیا بھر میں بھی محسوس کیا جانے لگا ہے اور اس پر مختلف گوشوں سے تبصرے بھی کیے جارہے ہیں۔
ہندوستان کے جمہوری فریم ورک میں اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ محض ایک آئینی وعدہ نہیں بلکہ ایک اخلاقی عہد ہے جو ریاست کی تکثیری روح اور انصاف کے فکری جواز کی بنیاد پر قائم ہے، مگر سوال یہ ہے کہ کیا قومی کمیشن برائے اقلیت این سی ایم اس عہد کا نگہبان رہا ہے یا خود محض ریاستی تماشے کا ایک علامتی کردار بن کررہ گیا ہے،حقیقت یہ ہے کہ این سی ایم کا موجودہ حال اس بات کی علامت بن چکا ہے کہ کس طرح ہمارے ادارہ جاتی ڈھانچے محض کاغذی وعدوں کے بوجھ تلے دم توڑ رہے ہیں۔ 1992 کے قانون کے تحت قائم ہونے والا قومی کمیشن برائے اقلیت اس مقصد کے لئے وجود میں لایا گیا تھا کہ وہ ملک کی 6 مطلع شدہ، اقلیتی برادریوں،مسلمان،سکھ،عیسائی، بدھ،پارسی اور جین کے مفادات کی حفاظت کرے گا مگر 2025 میں بھی جب کمیشن کے چیئر پرسن اور ارکان کے عہدے مہینوں سے خالی پڑے ہوں اور دہلی ہائی کورٹ کو اس کی تشکیل نو کے لیے حکومت کو متوجہ کرنا پڑے تو یہ انتظامی سستی نہیں بلکہ ادارہ جاتی غفلت کا نوحہ ہے،کمیشن جس پختگی،خود مختاری اور طاقت کا مستحق تھا وہ اسے کبھی نصیب نہ ہوسکا، سول کورٹ کے محدود اختیارات رکھنے والا یہ ادارہ اپنے فیصلوں کو نافذ تک نہیں کرا سکتا، نتیجتا اس کا کردار ایک مشاورتی کاغذ تک محدود رہ گیا ہے،جس پر عمل کرنا یا نہ کرنا حکومت کی مرضی پر منحصر ہے۔اقلیتوں کی حالت زار پر نظر ڈالیں تو 2011 کی مردم شماری کے مطابق وہ ملک کی آبادی کا تقریبا 20 فیصد ہیں مگر ان کی سماجی و معاشی حیثیت اب بھی تشویش ناک ہے،سچر کمیٹی(2006) نے ماضی میں مسلمانوں کی تعلیمی پسماندگی کواجاگر کیا تھا جبکہ رنگاناتھ مشرا کمیشن (2007) نے سماجی انصاف کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے اقلیتوں کی نمائندگی کے فقدان پر روشنی ڈالی تھی، لیکن ان رپورٹس کے بعد عملی سطح پر کیا بدلا؟ وزارت اقلیتی امور کی اسکیمیں چاہے وہ ملٹی سیکٹورل ڈیولپمنٹ پروگرام ہو یا وزیراعظم کا 15 نکاتی پروگرام،اکثر ناکافی فنڈنگ عمل درآمد کی سست روی اور سیاسی ترجیحات کی نظر ہوتی رہی ہیں،این سی ایم کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اس کی خود مختاری کا فقدان ہے،جب کوئی ادارہ انتظامی طور پر ایگزیکٹو کے تابع ہو تب وہ چاہ کر بھی آزادانہ طور پر حکومت کے اقدامات پر تنقید نہیں کر سکتا، یہی وجہ ہے کہ این سی ایم کی رپورٹس اکثر الماریوں میں بندر رہ جاتی ہیں اور اس کی سفارشیں عملی جامہ نہیں پہنتی،ایک ایسے ملک میں جہاں شیڈول کاشت اورشیڈول ٹرائب کمیشنوں کو آئینی درجہ حاصل ہے وہاں اقلیتوں کے تحفظ کے ضامین ادارے کو صرف ایک قانون قانونی درجے پر محدود رکھنا ناانصافی نہیں تو کیا ہے؟اب ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی کمیشن برائے اقلیت کو آئینی حیثیت دی جائے تاکہ وہ محض ایک مشاورتی باڈی نہیں بلکہ ایک مؤثر نگراں ادارہ بن سکے،اگر اسے آرٹیکل 338 کی طرز پر اختیارات دیے جائیں تو یہ نہ صرف حکومت کو جواب دہ بنا سکتا ہے،بلکہ اقلیتی برادریوں کے مسائل کو زمینی حقیقتوں کی سطح پر بھی حل کرا سکتا ہے،اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ کمیشن کو براہ راست فنڈنگ اور عملے کے تقرر میں خود مختاری دی جائے،تاکہ اس کی کاروائیاں ایگزیکٹو کے دباؤ سے آزاد رہ سکیں،ہمیں یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ اقلیتوں کا مسئلہ محض مذہبی یا ثقافتی شناخت کا نہیں بلکہ معاشی اور تعلیمی شمولیت کا ہے،مدارس کی جدید کاری ہنر پر مبنی تربیت اور اعلی تعلیم تک رسائی کے واضح اہداف کے بغیر اقلیتوں کی حالت میں کسی حقیقی تبدیلی کی امید محض فریب ہوگی،دیانت دارانہ سیاسی ارادہ اور ایک شفاف مانیٹرنگ نظام جیسے اقلیتی بہبود کے لیے قومی ڈیش بورڈ کی تشکیل ہی وہ راستے ہیں جن سے این سی ایم اپنا کھویا ہوا وقار اور افادیت واپس حاصل کرسکتا ہے،آخر میں سوال یہی ہے کہ ایک ایسا ملک جو اپنی تہذیبی تکثیریت پر فخر کرتا ہے وہ اقلیتوں کے حقوق کے دفاع کے سب سے بڑے ادارے کو اس قدر کمزور اور بے اثر کیوں دیکھنا چاہتا ہے اس کا جواب صاف ہے کہ ریاست نے اس ادارے کو طاقت نہیں تماشہ سمجھا،اب وقت ہے کہ اسے محض وزارت کے ماتحت پرزہ نہیں بلکہ جمہوری انصاف کے ستون میں بدلا جائے ورنہ آئینی وعدے لفظوں کے قبرستان میں دفن ہو جائیں گے اور اقلیتوں کی امیدیں ایک ایسے محافظ کی راہ تکتی رہیں گی جو خود اپنی بقا کی جنگ لڑرہا ہو۔
گزشتہ دنوں امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی جانب سے جو تازہ ترین رپورٹ جاری کی گئی ہے،اس میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ منظم انداز میں ناانصافیاں ہو رہی ہیں،ان سے امتیاز برتا جارہا ہے اور انہیں حاشیہ پر لا کھڑا کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی جارہی ہے،رپورٹ میں یہ دعوی کیا گیا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی نے اشتراک کے ذریعے ملک میں فرقہ وارانہ منافرت والا ماحول پیدا کردیا ہے،ملک میں قومی سطح پر اور کئی ریاستوں میں اس طرح کے قوانین بنائے جارہے ہیں جنکے ذریعے اقلیتوں کو اپنی مذہبی آزادی برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے اور وہ گھٹن محسوس کرنے لگے ہیں،رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کے دستور میں مذہبی و اعتقاد کی آزادی کی گنجائش فراہم کیے جانے کے باوجود ملک کے سیاسی نظام میں امتیاز کا ماحول پیدا کیا جارہا ہے اور اس کا شکار ملک کی مذہبی اقلیتیں بن رہی ہیں،رپورٹ میں مزید واضح کیا گیا ہے کہ آر ایس ایس اور بی جے پی کے گٹھ جوڑ نے ہندو نیشنلسٹ گروپ کی شکل اختیار کر لی ہے اور شہریت سے لے کر تبدیلی مذہب اور گاؤ ذبیحہ تک متنازعہ قوانین تیار کیے گئے ہیں،انکو مذہبی اقلیتوں پر لاگو کیا جارہا ہے،ان کے لیے مذہبی آزادی کو محدود کیا جارہا ہے اور پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں یہ صورتحال ایسی ہے جس میں مسلمان اور دیگر مذہبی اقلیتیں گھٹن محسوس کررہی ہیں انکے اندر ایک طرح کا عدم تحفظ کا احساس بھی پیدا ہونے لگا ہے،امریکہ کے مختلف کمیشن پہلے بھی ہندوستان میں مذہبی آزادی کی صورتحال پر اپنی ناقدانہ رپورٹس جاری کرچکے ہیں،امریکی کمیشن کی رپورٹ کو وزارت خارجہ کی جانب سے مسترد کیا گیا ہے اور باضابطہ طور پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا گیا ہے تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ ملک میں اقلیتوں کو حاشیے پر لا کھڑا کرنے کی کوششیں پورے منظم انداز سے کی جا رہی ہیں اور ان میں تیزی پیدا کردی گئی ہے،مسلمان ملک کی مذہبی اقلیت ضرور ہیں لیکن یہ ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت بھی ہیں اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جانا چاہیے کہ تقریبا 20 کروڑ مسلمانوں کے حقوق کو بیک وقت سلب نہیں کیا جا سکتا،ملک کی ترقی اور ہمہ جہتی پیشرفت کو یقینی بنانے کے لیے ضروری ہے کہ مسلمانوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بھی انصاف کیا جائے اور ان کو نشانہ بنانے یا ان کے حقوق سلب کرنے کی کوششوں کو ترک کیا جائے، ملک کی ترقی سماج کی ہر طبقہ کی ترقی سے مربوط ہے اور کسی بھی برادری کو الگ تھلگ نہیں کیا جانا چاہیے،مسلم قائدین میں اگر تاثر عام ہو رہا ہے کہ آزادی کے بعد سے ہی مسلمانوں کو ابھرنے سے روکا جا رہا ہے،انھیں اعلی عہدوں تک جانے سے محروم کیا جا رہا ہے،وہ پست ہمت بنادئے گئے ہیں تو اسکا سدباب ہونا چاہئے اور مسلمانوں کے ساتھ حکومت کو فراخدلانہ طور پر انصاف فراہم کیا جانا چاہئے ورنہ بھارت کے وشو گرو ہونے کا خواب محض خواب ہی رہے گا،حضرت مدنی نے حقیقت بیان کی ہے انکے بیان پر ہنگامہ آرائی اور تماشہ کرنے کے بجائے حکومت کو مسائل کے حل پر توجہ دینی چاہئے اور مسلمانوں کو یہ نظر بھی آناچاہئے کہ انکے ساتھ ملک کے ہر شعبے میں عدل و انصاف ہورہاہے۔
*(مضمون نگار،معروف صحافی اور کل ہند معاشرہ بچاؤ تحریک کے جنرل سکریٹری ہیں)*

