مخصوص سادات کی سرتابی، خود سری اور اپنے اونچی ذات ہونے کا زعم

ابھی برادری واد کے موضوع پر بات چل رہی تھی تو ہمارے ایک ساتھی نے بتایا کہ ان کا ایک دوست جو عراقی برادری کا تھا، ایم ایل اے کا امیدوار بنا، جب وہ سادات کے علاقے میں اپنے دوست کے لیے ماحول بنانے گئے تو سننا تو دور کوئی بات ہی کرنے کو تیار نہیں تھا، وجہ صرف یہی تھی کہ امیدوار چھوٹی ذات کا ہے اس کی اتنی بھی حیثیت نہیں کہ ہمارے سامنے بیٹھ سکے اور یہ ہمارا ایم ایل اے بنے گا؟ پھر انہوں نے بڑی مشکل سے ایک سید کی منت سماجت کرکے اپنا تعارف کرایا کہ بھائی وہ امیدوار بھلے ہی عراقی ہے لیکن میں عراقی نہیں شیخ ہوں اور دلائل وغیرہ دئیے، تب جاکر ان لوگوں نے گھاس ڈالی اور چائے وغیرہ سے آؤ بھگت کی، اسی سادات والے محلے کے بغل میں شیوخ کا ایک محلہ ہے بس یہ لوگ انہیں سے رسم و راہ رکھتے ہیں باقی سارے چھوٹی ذات کے مسلمان ان کے لیے اچھوت، ناقابل تکریم اور ذلیل ہیں، جن کے ساتھ وہ اٹھنا بیٹھنا، تعلقات رکھنا اور بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے۔
یہ ہے وہ خباثت جس کے خلاف ہم لڑنا چاہتے ہیں، یہ وہ مذہب اسلام تو نہیں جو میرے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے تھے، جس کی تعریف پیریار، سوامی وویکانند، پھولے اور امبیڈکر اسی طرح ڈاکٹر رام پنیانی نے کی اور تجزیہ کرکے بتلایا تھا کہ ہندوستان کے باشندے اسلام کی طرف اس لیے مائل ہوئے کیوں کہ اسلام وہ مذہب تھا جو سب کو برابر عزت دیتا تھا محض ذات یا نسل کی بنا پر تفریق نہیں کرتا تھا۔
کل پرسوں چند شاگردوں سے اس موضوع پر گفتگو ہوئی تو ان میں سے ایک کہنے لگا کہ آپ کی بات ہمیں بالکل تسلیم ہے لیکن بڑی ذات والوں کے رکھ رکھاؤ تہذیب اور کلچر میں بہرحال تفوق ہوتا ہے جو چھوٹی ذات والوں میں نہیں پایا جاتا، اس لیے ہمیں یہ گونہ فضیلت حاصل ہے، اور اسی لیے ہم چھوٹی ذاتوں میں شادی کرنا مناسب نہیں سمجھتے کیوں کہ ہماری تہذیب الگ الگ ہے، تو انہیں سمجھایا کہ پہلی بات تو یہ کہ قدیم زمانے میں ایک تہذیب ایک خاندان کا ہی طغرائے امتیاز سمجھی جاتی تھی کیوں کہ ایک خاندان والے دوسرے خاندان والوں کے کلچر و تہذیب سے عموماً نا آشنا ہوا کرتے تھے، لیکن اس وقت دنیا گلوبل ولیج بن چکی ہے، ہر خاندان کی تہذیب سے ہر کوئی واقف ہے، ہر گھرانہ اپنی تہذیب اپنانے کے لحاظ سے آزاد ہوچکا ہے، کوئی تہذیب کسی خاندان کے گھر کی لونڈی نہیں رہی، ٹی وی اور موبائل نے ہر مخصوص تہذیب کے تار و پود بکھیر کر رکھ دئیے ہیں اب مخلوط تہذیب ہی نئی تہذیب ہے جس میں اکثر برابریاں ہی دیکھنے کو ملتی ہیں۔
دوسری بات اگر کسی خاندان کی تہذیب اچھی مانی جاتی ہے تو اسلام یہ تعلیم ہرگز نہیں دیتا کہ اپنے خاندان تک اس کو محدود رکھو، اسلام ہمیشہ اس بات کی دعوت دیتا ہے کہ خیر کو پھیلاؤ اور ہم اسے جاگیر سمجھ کر اپنی ذات سے باہر رشتے کرنے اور میل جول رکھنے تک سے پرہیز کئے بیٹھے ہیں جو سراسر اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، پھر حفظ الرحمٰن بھائی نے ان کے سامنے کنز العمال کی ایک روایت نقل کی جو منتخب احادیث میں الترغیب کے حوالے سے مذکور ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطاب عام فرمایا اور دو تین بار کہا کہ کیا ہوگیا ہے لوگوں کو وہ اپنے پڑوس کے قبیلوں کو دین نہیں سکھاتے سمجھاتے اور انہیں اچھے باتوں کی طرف نہیں بلاتے اور بری باتوں سے نہیں روکتے اور کیا ہوگیا ہے ان لوگوں کو جو اپنے پڑوس کے قبیلے سے دین نہیں سیکھتے سمجھتے، عن قریب میں دونوں کو سزا دوں گا، لوگوں میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں اور یہ بات چل پڑی کہ اشعری قبیلہ پڑھا لکھا ہے اور ان کے پڑوس کا قبیلہ پڑھا لکھا نہیں ہے لہٰذا مراد یہی دونوں قبیلے والے ہیں، تو قبیلہ اشعری کے لوگ آئے اور پوچھا اے اللہ کے نبی! ہم نے سنا کہ آپ ہمارے قبیلے کی برائی اور دوسروں کی تعریفیں کررہے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی بات دہرائی، تو انہوں نے پوچھا کہ کیا ہمارے پر لازم ہے کہ انہیں صاحب علم و فہم بنائیں (یعنی ان کی جہالت کی سزا ہمیں ملے گی؟) تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ نے پھر وہی کلمات دہرائے اخیر میں انہوں نے کہا اے اللہ کے نبی! آپ ہمیں ایک سال دیں تاکہ ہم انہیں صاحب علم و فہم بنادیں۔
اس حدیث سے کچھ نتائج سمجھ میں آتے ہیں:
1 اس وقت لوگوں میں اشعری قبیلہ شریف، مہذب اور تعلیم یافتہ سمجھاجاتا تھا جب کہ بازو والا ناخواندہ، غیر مہذب اور کمتر سمجھا جاتا تھا
2 اور شریف قبیلہ کمتر قبیلے سے تعلق نہیں رکھنا چاہتا تھا اور نہ ہی یہ چاہتا تھا کہ ان کی سماجی و تعلیمی و تہذیبی حیثیت بلند ہو
3 لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ صرف یہ کہ انہیں اپنے برابر کرنے کی تعلیم دی اور نصیحت کی
4 بلکہ ایسا نہ کرنے پر سزا کی وارننگ بھی دی
5 اس کا مطلب ہر زمانے کی علماء کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ سماج میں موجود اونچ نیچ اور نا ہمواری کو ختم کرنے کی کوشش کریں نہ یہ کہ معذرت خواہانہ رویہ اختیار کریں یہ کہ کر کہ اتنا تو چلتا ہے، یہ تو ہوتا چلا آرہا ہے ہم اس کو ختم نہیں کرسکتے، یا پھر اس کی حمایت کرنے لگ جائیں۔
6 سماج کے اونچے طبقے کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ نیچے طبقے کو اونچا اٹھانے کی کوشش کریں اور اقدامات کریں کیوں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، "ما مِن أميرِ عشرةٍ إلا يُؤتَى به يومَ القيامةِ مغلولًا حتى يفكَّ عنه العدلُ أو يوبقَه الجورُ” (أخرجه أحمد (9573)، والدارمي (2515)، والبزار (8492) باختلاف يسير) کہ دس آدمیوں پر بھی اگر کسی کو اختیار حاصل ہو تو ایسے شخص کو قیامت کے دن طوق پہناکر لایا جائے گا اب اگر اس نے اپنے ماتحتوں کے ساتھ انصاف کیا ہوگا تو وہ طوق کھل جائے گا اور اگر ظلم کیا ہوگا تو وہ طوق اسے ہلاک کردے گا
7 اور الوالامر کی ذمہ داری تو اس سے بھی بڑھی ہوئی ہے کہ وہ صرف نصیحت سے کام نہ چلائیں بل کہ خباثت کے ساتھ سختی سے نمٹیں اور عمل در آمد نہ کرنے پر انہیں قرار واقعی سزا دیں تاکہ اجتماعی نظام فساد کا شکار نہ ہونے پائے۔
اور اسی لیے ہم نے مشن تقویتِ امت کے تحت برادری واد کے خلاف مہم چھیڑ رکھی ہے، کیوں کہ اسلام میں اس اونچ نیچ کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، آپ خود لفظ سادات کو دیکھ لیں، اس کا معنی ہوتا ہے سردار، گویا یہ مسلمانوں کے نسلی سردار ہیں، یہ اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنے والا شیعی تصور ہے، دین اسلام میں کوئی شخص سونے کی چمچی لے کر پیدا نہیں ہوتا، یہاں نبی اور صحابہ کے بعد ہر فضیلت کا معیار علم اور تقویٰ ہے، اگر ہم بھی اسی خباثت کے مرتکب ہوتے رہے تو پھر اس ملعون زدہ مغضوب علیھم قوم یہود کے کلمات "نحن ابناء اللہ و احباءہ” اور سادات کے "نحن ابناء النبی و احباءہ” میں نتیجے کے اعتبار سے کیا فرق رہ گیا؟
qiyam308@gmail.com 7070552322