اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر رکھی گئی ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ سب سے پہلے اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ ایک ہے اس کے سوا کوئی عبادت کے قابل نہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے آخری رسول ہیں۔
دوسرے نماز کی پابندی کرنا۔
تیسرے زکوٰۃ اداکرنا۔
چوتھے رمضان کے روزے رکھنا۔
پانچواں حج کرنا۔ان میں سے ایک روزہ بھی ہے جومرتبہ ومقام کے اعتبار سے قرب خداوندی حاصل کرنے کیلئے بہت اہم عبادت ہے۔رمضان جہاں اللہ کا مہمان ہے وہیں اللہ کی طرف سے ہمارے لئے ایک عظیم نعمت بھی ہے۔اور روزہ ہی صرف ایک ایسی عبادت ہے کہ جس کا اجر خود اللہ رب العزت قیامت کے دن اپنے بندوں کو اپنے دست قدرت سے عطافرمائے گا۔
رمضان کے روزوں کارکھنا اللہ رب العزت نے فرض قراردیا ہے۔جس کی فرضیت کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ’’یٰایھاالذین اٰمنواکُتب علیکم الصیام کماکُتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون‘‘سورہ بقرہ(قرآن)ترجمہ :اے ایمان والو! تم پراسی طرح روزے فرض کئے گئے ہیں کہ جس طرح تم سے پہلے لوگوں پرفرض کئے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بن جائو۔
رمضان المبارک کی آمدجیسے جیسے قریب ہوتی جاتی ہے اہل ایما ن کے دل میں خوشی اورمسرت کا اظہار بڑھنے لگتاہے۔یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس کی آمد کاانتظارہرمسلمان ایک رمضان سے دوسرے رمضان تک کرتاہے اوریہ مبارک مہینہ اللہ کی طرف سے اہل ایمان کے لئے ایک انمول تحفے کی حیثیت رکھتاہے کیونکہ یہ مہینہ اللہ کی طرف سے خوشخبری دیتاہے نیکی وبرکت،بخشش ومغفرت ،توفیق عبادت،صداقات وخیرات،جنت کی بشارت،جہنم سے آزادی،خاکساری ومساوات ودیگراعمال صالحہ کی ۔یہ مبارک مہینہ بندئہ مومن کواِن تمام اعمال صالحہ کی طرف لگادیاکرتاہے۔اس مبارک اور مقدس مہینے کے ذریعہ بندئہ مومن کے د ل میں فکرآخرت اور اللہ رب العزت سے ملاقات کی خواہش پیداہوجاتی ہے۔
اب ہمارا یہ فرض بنتاہے کہ ہم اس مبارک مہینے کااستقبا ل کس طرح کریں۔۔؟اور کس طرح اس کی رحمتوں وبرکتوں سے اپنے خالی دامنوں کوبھرنے کی کوشش کریں۔۔؟جب ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کامطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ رمضان سے دومہینے پہلے ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس مقدس مہینے(رمضان)کاذکرکرناشروع فرمادیاکرتے تھے۔ اوراس کی تیاری کرتے ہوئے آپ فرماتے کہ رجب اللہ کامہینہ ہے اور شعبان میرااوررمضان میری امت کامہینہ ہے۔
آپ اللہ سے رمضان کی آمد کی یہ دعا بھی کیاکرتے تھے کہ’’ اے اللہ ہمارے لئے رجب و شعبان میں برکت عطافرمااوررمضان تک ہمیں پہنچادے(نصیب فرما)‘‘۔جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں داخل ہوتے تورمضان کی تیاری اور تیز فرمادیاکرتے تھے۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاارشاد فرماتی ہیں کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان المبارک کے علاوہ کسی پورے مہینے کے روزے رکھے ہوں،اورمیں نے نہیں دیکھاکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مہینے میں شعبان سے زیادہ نفلی روزے رکھے ہوں۔(بخاری شریف)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سال میں کسی مہینے کے مکمل روزے نہیں رکھتے سوائے شعبان کو رمضان سے ملانے کیلئے۔(سنن ابی دائود)
شعبان کے مہینے میں کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھنا یہ بھی استقبال رمضان کا ایک طریقہ تھا۔کہ روزے رکھتے ہی رکھتے رمضان المبارک میں داخل ہوجاتے۔ان مبارک احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاہت یہ ہواکرتی تھی کہ شعبان المعظم کے مہینے کورمضان المبارک میں داخل ہونے کیلئے روحانی واخلاقی تربیت، اعمال صالحہ کی پابندی کے ساتھ روزے ،تلاوت قرآن ودیگر صدقات وخیرات کاذریعہ بناکر گزارا جائے۔تاکہ جب رمضا ن ہمارے اُپرسایہ فگن ہوتوہم اِن اعمال صا لحہ کے پابندہوچکے ہوں۔
اسی ماہ مقدس کی بشارت دیتے ہوئے نبی صلی علیہ وسلم نے فرمایاکہ جب رمضان المبارک شروع ہوتاہے توآسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اورایک روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اورشیاطین زنجیروں میں جکڑدئے جاتے ہیں اوروروایت دیگررحمت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔(بخاری ومسلم)
حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلویؒ اس حدیث مبارک کے تحت تحریرفرماتے ہیں کہ آسمان کے دروازے کھول دئے جانے کامطلب ہے کہ پے درپے اللہ کی رحمت کانازل ہونابغیرکسی رکاوٹ کے اور اعمال صالحہ کا بارگاہ الٰہی میں پہنچنا اور دُعاکاقبول ہونا،جنت کے دروازے کھول دئے جانے کامطلب ہے کہ نیک اعمال کی توفیق اللہ رب العزت کی طرف سے عطاہونا،دوزخ کے دروازے بند کئے جانے کے معنیٰ ہیں روزے داروں کے نفوس کو ممنوعات شرعیہ کی آلودگی سے پاک وصاف کرنااور گناہوں پراُبھارنے والی تمام چیزوں سے نجات دلانااوردل سے دنیوی لذتوں کونکالنااورشیاطین کوجکڑدئے جانے کامطلب ہے کہ بُرے خیالات کادل سے پاک و صاف ہوجانا۔توہمیں چاہئے کہ رمضان کی آمد سے پہلے پہلے اللہ سے توبہ واستغفارکے ذریعہ گناہوں کی معافی مانگیں تاکہ اللہ ہم سے راضی وخوش ہوجائے او رہم رمضان المبارک کی رحمتوں،برکتوں،بخشش و مغفرت کے حقداربن جائیں۔
اسی ماہ مقدس کی امت مُسلمہ کو خوشخبری دیتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جوشخص ایمان کے ساتھ ثواب کی امید سے روزے رکھے گا تواُس کے اگلے گناہ بخش دئے جائیں گے۔اورجوایمان کے ساتھ رمضان المبارک کی راتوں میں قیام یعنی عبادت کریگااُس کے بھی اگلے گناہ بخش دئے جائیں گے،اور جوایمان کے ساتھ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے شب قدرمیں قیام (عبادت)کریگا اُس کے بھی اگلے گناہ بخش دئے جائیں گے۔(مسلم شریف)
آمد رمضان کی تیاریاں آسمانوں پر بھی کی جاتی ہیں جس کامنظربیان کرتے ہوئے تاجدار کائنات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے توشیاطین اورسرکش جنات قید کردئے جاتے ہیں اورجہنم کے دروازے بندکردئے جاتے ہیں اور پھرپورے مہینے ان میں سے کوئی دروازہ نہیں کھولا جاتااورجنت کے دروازے کھول دئے جاتے ہیں ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیاجاتااور منادی پکارتاہے کہ اے خیرکے طلب کرنے والے متوجہ ہو(آگے بڑھ)اوراے برائی کا ارادہ رکھنے والے برائی سے رُک جااور اللہ بہت سے لوگوں کو دوزخ سے آزادی عطا فرماتاہے اور ہررات ایسا ہوتاہے۔(ترمذی شریف)
لہٰذامعلوم ہوا کہ ماہ شعبان ماہ رمضان کیلئے ایک مقدمہ کی حیثیت رکھتاہے اس لئے اس مہینے میں وہی اعمال کثرت کے ساتھ کرنے چاہئیں کہ جن اعمال کی کثرت ماہ رمضان میں کی جاتی ہے یعنی روزے ،تلاوت قرآن، نمازوں کی پابندی،صدقات وخیرات،ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی بُرے کاموں سے بچنادوسرے مسلمان بھائیوں کوبُرے کاموں سے بچنے کی نصیحت کرنا وغیرہ۔
ماہ شعبان میں روزوں و تلاوت قرآن کی کثرت اس لئے کی جاتی ہے کہ رمضان کی برکتوں،رحمتوں وسعادتوں کو حاصل کرنے کی تیاری مکمل ہوجائے اور ساتھ ہی ہمارانفس اللہ رب العزت کی اطاعت، عبادت وشکرگزاری پر اطمنان وخوش دلی سے راضی ہوجائے۔
رمضان کی آمدواستقبال کاذکرکرتے ہوئے حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے شعبان کے آخری دن کچھ اسطرح بھی ارشاد فرمایاحضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ راوی ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااے لوگو!تمہارے اُپر ایک مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے جوبہت بڑااورمبارک مہینہ ہے اس میں ایک رات ایسی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس کے روزے اللہ تعالیٰ نے فرض کئے ہیں اور اس کی رات میں قیام کرنا(نماز پڑھنا)نفل قرار دیاہے اس میں نیکی کا کوئی کام یعنی نفلی عبادت کرے توایساہے جیسے اور مہینوں میں فرض اداکیا۔اور جس نے فرض اداکیاتو ایساہے جیسے اور دنوں میں ستر(70)فرض اداکئے یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے اور یہ غم خواری کا مہینہ ہے اور اس ماہ مقدس میں مومن کارزق بڑھادیاجاتاہے۔جو اس مہینے میں روزے دار کو افطار کرائے اُس کے گناہوں کے لئے مغفرت ہے اُسکی گردن دوزخ سے آزاد کردی جائیگی اورروزہ افطار کرانے والے کو ویسا ہی ثواب ملے گاجیسا روزہ رکھنے والے کو ملے گابغیر اِس کے کہ اُس کے ثواب میں کچھ کمی واقع ہو۔
صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم میں کاہر شخص وہ چیز نہیں پاتاکہ جس سے وہ روزہ افطار کرائے ۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ یہ ثواب اُس شخص کو بھی عطافرمائے گا جو ایک گھونٹ دودھ یاایک کھجوریاایک گھونٹ پانی سے روزہ افطار کرائے،اور جس نے روزے دار کو پیٹ بھرکرکھاناکھلایاتو اُس کو اللہ رب العزت میرے حوض سے سیراب کریگاکہ کبھی وہ پیاسانہ ہوگایہاں تک کہ وہ جنت میں داخل ہوجائے گا۔یہ وہ مہینہ ہے کہ اِس کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور اِس کادرمیانی حصہ مغفرت ہے اور اِس کاآخری حصہ جہنم سے آزادی کاہے۔اورجو اپنے غلام پر اِس مہینے میں تخفیف کرے یعنی کام لینے میں کمی کرے تو اللہ تعالیٰ اُس کو بخش دے گااورجہنم سے آزادفرمائے گا۔اس حدیث مبارک میں رمضان کی عبادت کامقام بھی بیان فرمایاکہ نفل عبادت کو فرض کادرجہ دے دیاجاتاہے اورفرض کامقام و ثواب ستر گنا بڑہادیا جاتا ہے اور جب بندئہ مومن اس مہینے میں اپنے آپ کوبھوک پیاس و تمام بُرے کاموں سے بچاکر رضائے پروردگار حاصل کرنے کیلئے صبر کامظاہرہ کرتا ہے تواِس صبر کاصلہ اللہ نے جنت رکھاہے۔اور اِس مہینے میں اللہ اپنے بندوں کے وہم وگمان سے کہیں زیادہ اُن کے رزق کے میں اضافہ فرمادیاکرتاہے اپنی بے شمار نعمتوں کے ذریعہ۔اورفرمایاکہ جواس مہینے میں کسی کاروزہ افطار کرائے گااللہ کی عطاکردہ کسی بھی حلال وپاک چیز سے تواُس کے گناہوں کومعاف فرماکر بخش دیاجائے گااور کسی ایک کے ثواب میں ذرہ برابر کمی نہیں کی جائے گی۔جو اس ماہ مقدس میں کسی روزے دار کویاکسی ضرورت مندکوکھاناکھلائے گاتو اللہ رب العزت اس کو حضور کے حوض سے ایسی سیرابی عطافرمائے گاکہ کبھی وہ پیاسانہ ہوگا۔یہاں تک کہ وہ جنت کوپالیگا۔فرمایااس کے پہلے دس دنوں میں اللہ اپنی رحمت کواپنے بندوں کے لئے عام فرمادیاکرتاہے اور بعد کے دس دنوں میں اللہ اپنی مغفرت کو اپنے بندوں کے واسطے عام فرمادیاکرتاہے اور آخر کے دس دنوں میں اللہ اپنے بے شمار بندوں کو جہنم سے آزادی عطافرماتاہے۔جو اس مہینے میں کسی محنت کش مزدور انسان وغلام کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئے گاتواللہ اس کو بھی جہنم سے آزادی عطافرمائے گا۔اللہ رب العزت آمد رمضان سے پہلے ان سب کاموں کیلئے ہمیں تیار رہنے کی توفیق عطافرمائے۔
اگر ہم صحابہ کرام کی زندگی کامطالعہ کریں توصحابہ کرام شعبان کا چانددیکھتے ہی رمضان کی تیاری میں مصروف ہوجایاکرتے تھے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام جب رمضان کاچاند دیکھتے توکثرت کے ساتھ تلاوت قرآن عظیم میں مشغول ہوجاتے۔مالدار لوگ اپنے مالوں کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ کمزوراورمحتاج لوگ اپنی ضرورتوں کو پوراکرکے رمضان المبارک کے روزے رکھنے پر قادر ہوسکیں۔حکمران قیدیوں کوبلاتے اگر کسی کو حد لگانی ہوتی توحد لگاتے ورنہ رہاکردیتے۔تاجر حضرات سفر شروع کردیتے دوسروں کاقرض اداکرتے اور اپنامال اٹھالیتے یہاں تک کہ جب رمضان کاچاند دیکھتے توغسل کرتے اور اعتکاف میں بیٹھ جاتے۔(غنیتہ الطالبین)
اللہ ہمیں بھی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے اِس عمل کواپنے لئے نمونہ عمل بنانے کی توفیق عطافرمائے۔آمین
لفظ رمضان پانچ حروف پرمشتمل ہے
حرف ’ر‘اللہ تعالیٰ کی رضا سے۔
میم اللہ کی محبت سے۔
’ض‘اللہ کی ضمانت سے۔
’الف‘اللہ کی الفت سے۔
اور نون اللہ تعالیٰ کے نور سے لیاگیاہے۔
پس یہ مہینہ اللہ کے محبوب بندوں اور نیک لوگوں کے لئے اللہ کی رضا،محبت،ضمانت،الفت،نوربخشش و بزرگی کو حاصل کرنے کامہینہ ہے۔ماہ رمضان اپنے روزے داروں کے لئے شفیع ہوگا قیامت کے دن۔ماہ رمضان تلاوت قرآن کے نور سے مزین و منور ہے۔رمضان کے مہینے میں اگر کسی کی بخشش نہ ہوئی تو وہ سخت خسارہ اٹھانے والوں میں شمار ہو جائے گالہٰذا انسان کوچاہئے کہ توبہ کادروازہ بند ہونے سے پہلے اس ماہ مقدس میں توبہ کرلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایامیری امت جب تک رمضان کی عظمت کوبرقرار رکھے گی ذلیل و رسوا نہ ہوگی،ایک شخص نے عرض کی یارسول اللہ !ان کی ذلت کیا ہے۔۔؟فرمایاکسی شخص نے رمضان میں حرام یابرا عمل کیا شراب پی یازناکا ارتکاب کیااس سے رمضان المبارک کا عمل قبول نہ ہوگااورآئندہ رمضان تک فرشتے اورآسمان والے اُس پر لعنت بھیجتے رہیں گے،اور آئندہ رمضان سے پہلے مرگیا تو اللہ کے یہاں اس کی کوئی نیکی نہیں ہوگی۔(غنیتہ الطالبین)
اے بندئہ مومن !آنے والاماہ مقدس رمضان قلبی وذ ہنی صفائی کامہینہ ہے،یہ وفا کامہینہ ہے،ذاکرین،صابرین وصادقین کامہینہ ہے اے اللہ کے بندے! اگر یہ مہینہ تیرے دل کی اصلاح کرنے اللہ کی نافرمانی سے بچانے اور جرائم پیشہ لوگوں سے علیٰحدگی دلانے میں موئثر نہیں بن سکاتو پھرکونسی چیز تیرے دل پر اثر انداز ہوگی۔۔؟اے بندئہ مومن جوچیز تیرے اندر جگہ بناچکی ہے اُس سے خبردار!وآگاہ!ہوجااور غفلت کی نیند سے بیدار ہو۔دعا،توبہ،استغفار،عبادات کے ذریعہ ندامت کے آنسو بہاکر اپنے دل پر لگی گناہو ں کی گندگی کودور کرنے کیلئے اپنے مالک حقیقی اللہ رب العزت کے دربار کی طرف رجوع کریقینًا تیرارب تیری دعا واستغفار سے بہت زیادہ خوش ہوتا ہے اور اللہ تیرے دل پر لگی گناہوں کی گندگی کوآب رحمت سے دھوکر تجھ سے راضی و خوش ہوجائے گا۔
ہمیں چاہئے کہ ہم آنے والے ماہ مقدس کی تیاری اس انداز سے کریں کہ جس طرح جب ہمارے گھرپرہمارے کسی عزیز مہمان کی آمد ہوتی ہے ہم اُس کیلئے بہت ساری تیاریاں کرتے ہیں گھر وآگن کو بہت اچھے طریقے سے سجاتے و سنوارتے ہیں اور ہمارے گھر میں ایک عجیب خوشی کاماحول ہوتاہے ہم خود بھی زینت کو اختیار کرتے ہیں اور آنے والے مہمان کی خاطر وتواضع کیلئے پُرتکلف سامان(کھانے وغیرہ) بھی تیارکرتے ہیں جب ہم اپنے ایک عزیز مہمان کیلئے اس قدر پر تکلف ہوکر تیاری کرتے ہیں توپھروہ مہمان جو تمام مہمانوں سے افضل و اعلیٰ اور اللہ کی طرف سے بھیجا ہوا ہوتواُس کی تیاری کہیں زیادہ پُر زور طریقے پر ہونی چاہئے۔اُس کی تیاری کیلئے ہم نمازوں کے پابند ہوجائیں،تلاوت قرآن شروع کردیں،جھوٹ،مکروفریب،ریاکاری،حسد،بغض،کینہ،عداوت ونفرت اورتمام عادات قبیحہ ورذیلہ سے اپنی حفاظت کریں۔
اگرواقعی ہم تمام ممنوعات شرعیہ سے پاک وصاف رہے تویقیناًآنے والے مہمان کاصحیح انداز سے استقبال بھی کرسکیں گے اوراِس کی مہمان نوازی میں یعنی نماز،روزہ،نماز تراویح،تلاوت قرآن ،صدقات وخیرات کاخصوصی اہتمام کرکے زیادہ سے زیادہ اللہ کے روزے دار بندوں کوافطار کراکرایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ودلجوئی کرکے اسکا حق ادا کرسکیں گے۔
اللہ رب العزت ہمیں ماہ مقدس رمضان کابہترین طریقے سے استقبال کرنے اوراس مہینے سے ہرطرح کافائدہ اٹھانے اورماہ رمضان کی تمام رحمتوں،برکتوں،بخشش ومغفرت کو حاصل کرنے کے ساتھ جہنم سے آزادی امت مسلمہ کو نصیب فرما ئے اورتمام اعمال صالحہ کو آخرت میں نجات کاذریعہ بنائے۔آمین
از۔۔۔۔محمد محفوظ قادری 9759824259