عالیجناب مولانا ممتاز علی واعظ(امام جمعہ و الجماعت ،امامیہ ہال،پنچکوئیاں روڈ، نئی دہلی) کے انتقال پُر ملال کو ایک ہفتہ گزر گیا ۔
اس درمیان مولانا موصوف کے انتقال کی خبریں مختلف اخبارات ورسائل اور سوشل میڈیا پر بھی شائع ہوئی ہیں اور یہ سلسلہ جاری
ہے۔محترم مولانا ممتاز صاحب کے انتقال کے سلسلہ میں مختلف شخصیات اور اداروں کی طرف سے تعزیتی نشستوں اور پیغامات کا
سلسلہ بھی جاری ہے۔ ممتاز صاحب سے متعلق ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر نشر کی جارہی ہیں۔
واقعاممتاز صاحب کی شخصیت ممتاز اور محترم شخصیت تھی اواخلاق حسنہ و اوصاف حمیدہ سے مزین تھی۔ نیک، شریف اور با عمل
عالم دین تھے۔مولانا ممتاز کے بارے میں گزشتہ ایک ہفتے میں بہت کچھ لکھا گیا ہےاور یہ سلسلہ آئندہ بھی جاری رہے گا۔ممتاز صاحب کی
جن خوبیوں اور صفات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں کچھ خوبیاں ایسی ہیں جو بہت سی دیگر شخصیات میں بھی پائی جاتی ہیں لیکن کچھ خوبیاں
ممتاز صاحب میں ایسی تھیں جودوسرے بہت کم افراد میں پائی جاتی ہیں، اسی لئے وہ صرف نام کے ممتاز نہیں تھے بلکہ حقیقت میں ممتاز
تھے۔یہاں ممتاز صاحب کی ممتاز خوبیوں میں سے صرف ایک پر روشنی ڈالی جا رہی ہے اور یہ ضروری بھی ہے۔
محترم مولانا ممتاز صاحب کی ذات میں علم دوستی اور فروغ علم کا جذبہ بہت عظیم جذبہ تھا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ مولانا ممتازصاحب نےفروغ علم اور دینی مسائل سے آگاہی کے لئے ایک عرصےتک کام کیا اور اس کام کے لئے انہوں نے کبھی کوئی پیسہ نہیں لیا ۔بہت سی دیگر شخصیات کی طرح مولانا ممتاز صاحب اپنے کام کی تشہیر نہیں کرتے تھے۔یہ سنہ ٫۱۹۹۰ کے اوائل کی بات ہے جب دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے ب"اڑہ ہندو راؤ" میں ایک تنظیم بنائی گئی تھی "فروغ علمکونسل"کے نام سے۔ جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے اس تنظیم کا کام علم کو فروغ اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ سماجی خدمات بھی انجام دینا تھا۔
فروغ علم کونسل دہلی میں صوبائی سطح پر شیعہ طلبا و طالبات کودسویں اور بارہویں کلاس میں نمایاں کامیابی حاصل کرنے پر کچھ نقد
رقم دیتی تھی اور ایک شیلڈ اور توصیفی سندبھی۔ امامیہ ہال میں کونسل کی طرف سے سالانہ ایک جشن کا انعقاد کیا جاتا
تھا جس میں طلبا و طالبات کو انعامات دیئے جاتے تھے اور کچھ شعرا اپنا کلام پیش کرتے تھے۔ اسی تقریب میں ایک طالبہ اور ایک طالب
علم مقالہ بھی پڑھتا تھا جس کا موضوع علم کی اہمیت ہوتا تھا۔اس جشن میں ایک تقریر مولانا ممتاز صاحب کی بھی ہوتی تھی۔
علاوہ ازیں، ۷/ربیع الاول کو درگاہ شاہ مرداں میں مفت میڈیکل کیمپ کا انعقاد بھی کونسل کرتی تھی۔ میڈیکل کیمپ میں مفت دوائیں دی
جاتی تھیں اور ڈاکٹر کی کوئی فیس بھی نہیں ہوتی تھی۔ اس وقت شاہ مرداں میں صرف فروغ علم کونسل کی طرف سے ہی مفت میڈیکل
کیمپ کا اہتمام کیا جاتا تھا۔ فروغ علم کونسل کی طرف سے "بڑا گھر"، باڑہ ہندو راؤ، دہلی میں ہر ہفتے ایک کلاس کا بھی اہتمام کیا جاتا تھا جس میں مولانا ممتازصاحب شرعی مسائل بیان کرتے تھے ۔ ممتاز صاحب مغرب کے بعد بلا ناغہ امامیہ ہال سے "بڑا گھر" تشریف لاتے تھے۔ مولانا کو لانےلے جانے کا انتظام فروغ علم کونسل کرتی تھی لیکن اس درس کیزحمت کے لئے ممتاز صاحب نے کبھی کوئی پیسہ نہیں لیا ۔یہ سلسلہکئی سال تک جاری رہا۔ بہرحال، فروغ علم کونسل کا چاہے سالانہ جشن ہو یا کوئی اور کام محترم مولانا ممتاز صاحب کی تائید اور سرپرستی اس کو حاصل تھی۔اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اگر ممتاز صاحب کا ساتھ نہیں ملا ہوتا تو فروغ علم کونسل نے جو کام انجام دیئے وہ انجام نہ دے پاتی۔ کونسل کا ایک فعال شعبہٴ خواتین بھی تھا لیکن افسوس سنہ ۱۹۹۸٫کے بعد سے بعض وجوہات کی بنا پر کونسل غیر فعال ہوگئی۔ قابل ذکر ہے کہ فروغ علم کونسل کے ارکان کی تعداد زیادہ نہیں تھی
لیکن جو کام بھی کونسل نے انجام دیا اس کے لئے غیر رکن افراد سےکبھی کوئی چندہ نہیں لیا۔جو بھی اخراجات ہوتے تھے وہ کونسل کے
ارکان ہی برداشت کرتے تھے۔ جناب محمد اصغر(ولد محمد اخترمرحوم) فروغ علم کونسل کے صدر تھے ،جن کا گزشتہ سال انتقال ہوگیا، اخراجات کا ایک برا حصہ محمد اصغر صاحب ہی برداشت کرتے تھے۔ قریش نگر میں ان کا اپنا میڈیکل اسٹور بھی تھا۔ مفت میڈیکل کیمپ میں مریضوں کو دی جانے والی دوائیں بھی اصغر صاحب کی طرف سے فراہم کی جاتی تھیں۔
ہاشم علی مغمومؔ
تہران-ایران