روس نے امریکہ کو ایک بار پھر خبردار کیا ہے کہ وہ اسرائیل کی ایران کے خلاف شروع کی گئی جنگ میں شامل نہ ہو ۔ روس کی طرف سے جمعرات کے روز یہ انتباہ اس وقت کیا گیا ہے جب امریکہ کے اس جنگ میں کودنے کے بارے میں مختلف خبریں اور موقف پیش کیے جارہے ہیں۔اسرائیل نے اس روسی انتباہ سے سات روز قبل ایران پر غیر معمولی حملے شروع کیے تھے۔ جس کا ایران کی طرف سے بھی غیر معمولی میزائل حملوں کی صورت جواب دیا جارہا ہے۔وس ایران کے اہم ترین اتحادیوں میں سے ایک ہے۔دونوں ملکوں کے درمیان گہرا تذویراتی اور فوجی تعاون و شراکت داری موجود ہے۔لیکن ایران پر اسرائیلی حملوں کے باوجود روس نے اس تناظر میں ایران کو کوئی مدد نہیں دی ہے۔ ولادی میر پیوٹن خود کو ایک ایسے ثالث کے طور پیش کر رہے ہیں جو خود جنگ کا حصہ بنا ہو ۔اب جمعرات کے روز روس کی طرف سے کہا گیا ہے ‘ ہم امریکہ کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس جنگی ماحول میں نہ شامل ہو۔’ یہ بات روسی وزارت خارجہ کی ترجمان ماریہ زاہروف نے رپورٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔روسی ترجمان نے یہ انتباہ صدر ٹرمپ کے اس بیان کے ایک روز بعد دیا ہے۔ بدھ کے روز ٹرمپ نے کہا تھا کہ ‘ امریکہ اس امر پر غور کر رہا ہے ۔ لیکن ابھی واضح نہیں کہ میں یہ فیصلہ کرتا ہوں یا ایسا فیصلہ نہیں کرتا۔’اس سے قبل ٹرمپ اسرائیل ایران جنگ کے حوالے سے روسی ثالثی کی پیش کش کو قبول کرنے سے انکار کر چکے ہیں۔ ٹرمپ کا یہ ثالثی مسترد کرتے ہوئے کہنا تھا روس پہلے اپنا یوکرین کے ساتھ جھگڑا ختم کرے۔کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے جمعرات کے روز ہی کہا تھا کہ ٹرمپ کے روسی ثالثی کی تجویز مسترد کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ہے۔ یہ پیش کش تو ان ملکوں کی گئی تھی جو اس جنگ کے براہ راست فریق ہیں۔
روسی ترجمان ماریہ زاہروف نے امریکہ کو انتباہ کرتے ہوئے کہا ‘ کیا ایران میں امریکی فوجی کارروائی امریکہ کا انتہائی خطرناک قدم ہو گا جس کے بہت غیر متوقع اور منفی نتائج سامنے آئیں گے۔ ‘یاد رہے روس کی طرف سے یہ انتباہ پیوٹن نے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے فون پر اس معاملے میں ہونے والے تبادلہ خیال کے دوران کیا ہے اور دونوں رہنماؤں نے اسرائیل کی ایران کے خلاف جارحیت کی مذمت کی ہے۔
صدر پیوٹن کے معاون یوری اوشاکوف نے صحافیوں کو دونوں رہنماؤں کی فون پر ہونے والی گفتگو کے بعد بریف کیا تھا کہ ماسکو اور بیجنگ کا خیال ہے کہ دشمنی کا خاتمہ سیاسی اور سفارتی طریقوں سے کیا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا روس برسوں سے ایک ایسے ریاستی اداکار کے طور پر مشرق وسطیٰ کی چیزوں کو دیکھ رہا ہے کہ وہ خطے کے تمام بڑے کھلاڑیوں کے ساتھ گرمجوشی پر مبنی تعلقات برقرار رکھتا ہے۔