نئی دہلی (پریس رپورٹ) ڈاکٹر نوہیرا شیخ، ہیرا گروپ آف کمپنیز کی بانیہ اور سی ای او، ایک ایسی شخصیت ہیں جنہوں نے اپنے کاروباری ماڈل اور سماجی خدمات کے ذریعے بہت سے لوگوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ ان کا ادارہ سود سے پاک تجارت اور خواتین کی معاشی خودمختاری پر زور دیتا ہے، جس نے انہیں ہندوستان میں ایک نمایاں مقام دلایا۔ تاہم، ان کی کامیابی کے ساتھ ساتھ تنازعات بھی سامنے آئے ہیں، اور حالیہ دنوں میں ان کے حامیوں کو قید اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کا سامنا کرنے کی اطلاعات ہیں۔

ڈاکٹر نوہیرا شیخ ایک کاروباری خاتون ہیں جنہوں نے ہیرا گروپ آف کمپنیز کی بنیاد رکھی، جو کہ مختلف شعبوں جیسے کہ ایجوکیشن، ہیلتھ کیئر، ٹریڈنگ، اور رئیل اسٹیٹ میں کام کرتا ہے۔ ان کا ادارہ خاص طور پر سود سے پاک (اسلامک فنانس) کاروباری ماڈل پر مبنی ہے، جو مسلم کمیونٹی کیلئے ایک پرکشش آپشن ہے۔ نوہیرا شیخ نے اپنی سماجی خدمات، خاص طور پر خواتین کی تعلیم اور معاشی ترقی کیلئے بھی شہرت حاصل کی۔ انہوں نے آل انڈیا مہیلا امپاورمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی، جو خواتین کے حقوق اور سماجی انصاف کیلئے کام کرتی ہے۔ تاہم، ہیرا گروپ پر مالی بدعنوانیوں اور سرمایہ کاروں کے ساتھ دھوکہ دہی کے الزامات بھی عائد ہوئے ہیں۔ 2012میں حیدر آباد سے ممبر پارلیمنٹ اسد الدین اویسی نے ہیرا گروپ اور اس کی سی ای او عالمہ ڈاکٹر نوہیرا شیخ پر شک کے بنیاد پر مقدمہ درج کیا، جو کہ مقدمہ عائد کردہ کی ہی شکست فاش کا سبب بنا۔ ایسا لگتا ہے اسی شکست فاش سے دو چار ہونے کے بعد 2018 میں، ڈاکٹر نوہیرا شیخ کو بلا کسی نوٹس اور پیشگی اطلاع کے پولیس نے سرمایہ کاروں سے دھوکہ دہی کے مشکوک الزام میں گرفتار کیا تھا۔ اگرچہ وہ بعد میں ضمانت پر رہا ہوگئیںاور جانچ ایجنسیوں کو کسی بھی طرح کا کوئی ثبوت مہیا نا ہوسکا، لیکن ان کے خلاف قانونی کارروائیاں جاری ہیں۔ ان الزامات نے ان کی ساکھ کو نقصان پہنچایا، لیکن ان کے حامیوں کا ماننا ہے کہ یہ الزامات سیاسی اور کاروباری سازشوں کا نتیجہ ہیں۔
مطیع الرحمن عزیز، ایک صحافی اور سماجی کارکن، نے ڈاکٹر نوہیرا شیخ اور ہیرا گروپ کے بارے میں کھل کر لکھا اور بولا ہے۔ ان کے مضامین اور بیانات میں نوہیرا شیخ کے کاروباری ماڈل اور سماجی خدمات کی ستائش کی گئی، جبکہ ان پر لگائے گئے الزامات کو سازش قرار دیا گیا۔ تاہم، ان کی یہ حمایت ان کیلئے مشکلات کا باعث بنی۔ اطلاعات کے مطابق، مطیع الرحمن عزیز اور دیگر حامیوں کو دھمکیاں موصول ہوئیں، جن میں قید کرانے اور جان سے مارنے کی باتیں شامل ہیں۔ ایک ایکس پوسٹ (18 جون 2025) کے مطابق، یہ دھمکیاں لینڈ مافیا اور بچولیوں کی طرف سے دی جا رہی ہیں، جو مبینہ طور پر ہیرا گروپ کے سود سے پاک کاروبار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان دھمکیوں کا مقصد نوہیرا شیخ کے حامیوں کو خاموش کرنا اور ان کے کاروبار کو کمزور کرنا ہے۔ مطیع الرحمن عزیز نے ان دھمکیوں کو عوامی کیا، جس سے یہ معاملہ سوشل میڈیا ، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں موضوع بحث بن گیا۔
ہیرا گروپ کا سود سے پاک کاروباری ماڈل روائتی مالیاتی اداروں اور دیگر کاروباری گروہوں کیلئے خطرہ بن گیا ہے۔ خاص طور پر، زمین مافیا اور رئیل اسٹیٹ کے کھلاڑیوں کو ہیرا گروپ کی رئیل اسٹیٹ سرمایہ کاریوں سے نقصان پہنچا ۔ ان گروہوں کی طرف سے دھمکیاں ایک منظم کوشش ہیں تاکہ ہیرا گروپ کی ساکھ اور کاروبار کو کمزور کیا جا کے۔نوہیرا شیخ کی سیاسی سرگرمیاں، خاص طور پر AIMEP کے ذریعے، کچھ سیاسی حلقوں کیلئے پریشانی کا باعث بنیں۔ ان کی پارٹی خواتین کے حقوق اور اقلیتوں کے مسائل کو اٹھاتی ہے، جو بعض طاقتور گروہوں کے مفادات کے خلاف ہے۔ مطیع الرحمن عزیز جیسے حامیوں کو دھمکیاں سیاسی دباو ¿ کا حصہ مانی جا رہی ہیں۔ مطیع الرحمن عزیز جیسے صحافی اور کارکن سوشل میڈیا اور میڈیا کے ذریعے نوہیرا شیخ کے بیانیے کو فروغ دیتے ہیں۔ ان کی آواز کو دبانے کی کوشش ان کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر توہین مذہب یا دیگر حساس الزامات لگا کر لوگوں کو خاموش کرنے کی مثالیں زمانہ ماضی سے دیکھی جا رہی ہیں، ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے خلاف جاری قانونی کارروائیوں کے تناظر میں، ان کے حامیوں کو قانونی دباو ¿ کے ذریعے خاموش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ قید کی دھمکیاں اسی حکمت عملی کا حصہ مانی جا رہی ہیں، صحافیوں اور کارکنوں کو دھمکیاں دینا اظہار رائے کی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔ مطیع الرحمن عزیز جیسے افراد جو اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتے ہیں، انہیں ڈرا دھمکا کر معاشرے میں خوف کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے دیگر حامیوں میں ان دھمکیوں کی وجہ سے خوف پیدا ہو رہا ہے، جس سے وہ اپنی حمایت کو کم یا ختم کر دیں۔ یہ ہیرا گروپ اور نوہیرا شیخ کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہوگا۔یہ دھمکیاں معاشرے میں تقسیم کو بڑھا تی ہیں، خاص طور پر جب انہیں مذہبی یا فرقہ وارانہ رنگ دیا جائے۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تناو ¿ بڑھ سکتا ہے۔اگر دھمکیاں دینے والوں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو یہ قانونی نظام کی کمزوری کو ظاہر کرے گا۔ اس سے معاشرے میں عدم اعتماد بڑھے گا۔مطیع عزیز نے ان دھمکیوں کے باوجود اپنی آواز بلند رکھی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ وہ سچائی کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہیرا گروپ کے سود سے پاک ماڈل کو فروغ دینے کیلئے پرعزم ہیں۔ انہوں نے ان دھمکیوں کو عوامی پلیٹ فارمز پر اٹھایا، جس سے یہ معاملہ زیادہ توجہ حاصل کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دھمکیاں ان کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتیں، لیکن وہ حکام سے تحفظ اور انصاف کے متلاشی ہیں۔حکام کو چاہیے کہ ان دھمکیوں کی فوری تحقیقات کریں اور مطیع الرحمن عزیز سمیت دیگر حامیوں کو تحفظ فراہم کریں۔ دھمکی دینے والوں کی شناخت اور ان کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔حکومت کو صحافیوں اور کارکنوں کے حق آزادی رائے کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اس طرح کے واقعات جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے خطرہ ہیں۔نوہیرا شیخ کے خلاف مقدمات کی شفاف اور غیر جانبدارانہ سماعت ضروری ہے تاکہ سچ سامنے آئے اور سازش کے الزامات کی حقیقت کھل سکے۔
ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی حمایت میں لکھنے اور بولنے والوں، خاص طور پر مطیع الرحمن عزیز، کو قید اور جان سے مارنے کی دھمکیاں ایک سنگین معاملہ ہے۔ یہ نہ صرف ان کی ذاتی حفاظت کیلئے خطرہ ہے بلکہ معاشرے میں آزادی رائے اور انصاف کے اصولوں کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ ان دھمکیوں کے پیچھے کاروباری رقابت، سیاسی دباو ¿، اور قانونی ہتھکنڈوں کا امکان ہے، لیکن حتمی حقیقت تحقیقات سے ہی سامنے آ سکتی ہے۔حکومت، میڈیا، اور سول سوسائٹی کو مل کر اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ مطیع الرحمن عزیز جیسے افراد کی آواز کو دبانے کی کوشش نہ صرف ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک آزاد اور منصفانہ معاشرے کے تصور کے منافی ہے۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے کیس کی شفاف سماعت اور دھمکیوں کی تحقیقات سے ہی اس تنازع کا حل ممکن ہے۔ اس دوران، ہمیں ان تمام افراد کی حمایت کرنی چاہیے جو سچائی اور انصاف کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔
مطیع الرحمن عزیز، ایک صحافی اور سماجی کارکن، نے ڈاکٹر نوہیرا شیخ اور ہیرا گروپ کے بارے میں کھل کر لکھا اور بولا ہے۔ ان کے مضامین اور بیانات میں نوہیرا شیخ کے کاروباری ماڈل اور سماجی خدمات کی ستائش کی گئی، جبکہ ان پر لگائے گئے الزامات کو سازش قرار دیا گیا۔ تاہم، ان کی یہ حمایت ان کیلئے مشکلات کا باعث بنی۔ اطلاعات کے مطابق، مطیع الرحمن عزیز اور دیگر حامیوں کو دھمکیاں موصول ہوئیں، جن میں قید کرانے اور جان سے مارنے کی باتیں شامل ہیں۔ ایک ایکس پوسٹ (18 جون 2025) کے مطابق، یہ دھمکیاں لینڈ مافیا اور بچولیوں کی طرف سے دی جا رہی ہیں، جو مبینہ طور پر ہیرا گروپ کے سود سے پاک کاروبار کو نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان دھمکیوں کا مقصد نوہیرا شیخ کے حامیوں کو خاموش کرنا اور ان کے کاروبار کو کمزور کرنا ہے۔ مطیع الرحمن عزیز نے ان دھمکیوں کو عوامی کیا، جس سے یہ معاملہ سوشل میڈیا ، پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں موضوع بحث بن گیا۔
ہیرا گروپ کا سود سے پاک کاروباری ماڈل روائتی مالیاتی اداروں اور دیگر کاروباری گروہوں کیلئے خطرہ بن گیا ہے۔ خاص طور پر، زمین مافیا اور رئیل اسٹیٹ کے کھلاڑیوں کو ہیرا گروپ کی رئیل اسٹیٹ سرمایہ کاریوں سے نقصان پہنچا ۔ ان گروہوں کی طرف سے دھمکیاں ایک منظم کوشش ہیں تاکہ ہیرا گروپ کی ساکھ اور کاروبار کو کمزور کیا جا کے۔نوہیرا شیخ کی سیاسی سرگرمیاں، خاص طور پر AIMEP کے ذریعے، کچھ سیاسی حلقوں کیلئے پریشانی کا باعث بنیں۔ ان کی پارٹی خواتین کے حقوق اور اقلیتوں کے مسائل کو اٹھاتی ہے، جو بعض طاقتور گروہوں کے مفادات کے خلاف ہے۔ مطیع الرحمن عزیز جیسے حامیوں کو دھمکیاں سیاسی دباو ¿ کا حصہ مانی جا رہی ہیں۔ مطیع الرحمن عزیز جیسے صحافی اور کارکن سوشل میڈیا اور میڈیا کے ذریعے نوہیرا شیخ کے بیانیے کو فروغ دیتے ہیں۔ ان کی آواز کو دبانے کی کوشش ان کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔ سوشل میڈیا پر توہین مذہب یا دیگر حساس الزامات لگا کر لوگوں کو خاموش کرنے کی مثالیں زمانہ ماضی سے دیکھی جا رہی ہیں، ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے خلاف جاری قانونی کارروائیوں کے تناظر میں، ان کے حامیوں کو قانونی دباو ¿ کے ذریعے خاموش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ قید کی دھمکیاں اسی حکمت عملی کا حصہ مانی جا رہی ہیں، صحافیوں اور کارکنوں کو دھمکیاں دینا اظہار رائے کی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔ مطیع الرحمن عزیز جیسے افراد جو اپنی رائے کا کھل کر اظہار کرتے ہیں، انہیں ڈرا دھمکا کر معاشرے میں خوف کا ماحول پیدا کیا جا رہا ہے۔
ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے دیگر حامیوں میں ان دھمکیوں کی وجہ سے خوف پیدا ہو رہا ہے، جس سے وہ اپنی حمایت کو کم یا ختم کر دیں۔ یہ ہیرا گروپ اور نوہیرا شیخ کی ساکھ کے لیے نقصان دہ ہوگا۔یہ دھمکیاں معاشرے میں تقسیم کو بڑھا تی ہیں، خاص طور پر جب انہیں مذہبی یا فرقہ وارانہ رنگ دیا جائے۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تناو ¿ بڑھ سکتا ہے۔اگر دھمکیاں دینے والوں کے خلاف کارروائی نہ کی گئی تو یہ قانونی نظام کی کمزوری کو ظاہر کرے گا۔ اس سے معاشرے میں عدم اعتماد بڑھے گا۔مطیع عزیز نے ان دھمکیوں کے باوجود اپنی آواز بلند رکھی ہے۔ ان کا موقف ہے کہ وہ سچائی کے ساتھ کھڑے ہیں اور ہیرا گروپ کے سود سے پاک ماڈل کو فروغ دینے کیلئے پرعزم ہیں۔ انہوں نے ان دھمکیوں کو عوامی پلیٹ فارمز پر اٹھایا، جس سے یہ معاملہ زیادہ توجہ حاصل کر رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ دھمکیاں ان کے عزم کو کمزور نہیں کر سکتیں، لیکن وہ حکام سے تحفظ اور انصاف کے متلاشی ہیں۔حکام کو چاہیے کہ ان دھمکیوں کی فوری تحقیقات کریں اور مطیع الرحمن عزیز سمیت دیگر حامیوں کو تحفظ فراہم کریں۔ دھمکی دینے والوں کی شناخت اور ان کے خلاف کارروائی ضروری ہے۔حکومت کو صحافیوں اور کارکنوں کے حق آزادی رائے کی حفاظت کرنی چاہیے۔ اس طرح کے واقعات جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لیے خطرہ ہیں۔نوہیرا شیخ کے خلاف مقدمات کی شفاف اور غیر جانبدارانہ سماعت ضروری ہے تاکہ سچ سامنے آئے اور سازش کے الزامات کی حقیقت کھل سکے۔
ڈاکٹر نوہیرا شیخ کی حمایت میں لکھنے اور بولنے والوں، خاص طور پر مطیع الرحمن عزیز، کو قید اور جان سے مارنے کی دھمکیاں ایک سنگین معاملہ ہے۔ یہ نہ صرف ان کی ذاتی حفاظت کیلئے خطرہ ہے بلکہ معاشرے میں آزادی رائے اور انصاف کے اصولوں کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ ان دھمکیوں کے پیچھے کاروباری رقابت، سیاسی دباو ¿، اور قانونی ہتھکنڈوں کا امکان ہے، لیکن حتمی حقیقت تحقیقات سے ہی سامنے آ سکتی ہے۔حکومت، میڈیا، اور سول سوسائٹی کو مل کر اس معاملے کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔ مطیع الرحمن عزیز جیسے افراد کی آواز کو دبانے کی کوشش نہ صرف ان کے حقوق کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک آزاد اور منصفانہ معاشرے کے تصور کے منافی ہے۔ ڈاکٹر نوہیرا شیخ کے کیس کی شفاف سماعت اور دھمکیوں کی تحقیقات سے ہی اس تنازع کا حل ممکن ہے۔ اس دوران، ہمیں ان تمام افراد کی حمایت کرنی چاہیے جو سچائی اور انصاف کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں۔