نئی دہلی (نیوز رپورٹ) – ہیرا گروپ آف کمپنیز کے ایک سرمایہ کار اور ایک اخبار کے ایڈیٹر مطیع الرحمن عزیز نے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے مبینہ غیر قانونی جائیداد نیلامی کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ اس احتجاج کے ردعمل میں، آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے ایک رہنما شہباز احمد خان جو حیدرآباد سے تعلق رکھتے ہیں، نے ای ڈی کو ٹوئٹ کے ذریعے اپیل کی ہے کہ مطیع الرحمن کو گرفتار کیا جائے۔ شہباز احمد خان کا دعویٰ ہے کہ مطیع الرحمن ہیرا گروپ کے حق میں آواز اٹھا کر ان کے مخفی سرگرمیوں کی پول کھول رہے ہیں۔ مطیع الر حمن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وہ ہیرا گروپ کے سرمایہ کار ہیں اور ای ڈی کے اقدامات کو غیر قانونی سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہباز احمد خان، جو کہ اے آئی ایم آئی ایم کے رہنما ہیں، ہیرا گروپ کے خلاف منظم سازشی مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے مزید الزام عائد کیا کہ شہباز احمد خان نے 2018 میں ہیرا گروپ کے خلاف متعدد افراد سے ایف آئی آر درج کروائیں اور کمپنی کو بند کرنے کے لیے مفت قانونی امداد فراہم کی، جسے وہ مبینہ طور پر اے آئی ایم آئی ایم کے صدر بیرسٹر اسد الدین اویسی کے اشاروں پر کر رہے ہیں۔ اس تنازع کی جڑیں 2012 تک جاتی ہیں جب اسد الدین اویسی نے ہیرا گروپ کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی، جس میں کمپنی پر "سود سے پاک” نعرے کے تحت مبینہ طور پر غلط ہونے کا جھوٹا الزام لگایا گیا تھا۔ تاہم اسد اویسی کے دائر معاملے پر چار سال تک مقدمہ چلنے کے بعد اویسی کو ناکامی اور شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے باوجود، 2018 میں ایم آئی ایم شہباز احمد خان نے ایک بار پھر ہیرا گروپ کیخلاف مہم شروع کی اور کمپنی کو بند کرنے کی کوشش کی۔مطیع الرحمن نے شہباز احمد خان پر سنگین الزامات عائد کیے ہیں، جن میں قتل، زنا بالجبر، لوٹ مار، اور دیگر سماجی برائیوں میں ملوث ہونے کا دعویٰ شامل ہے۔ انہوں نے کہا کہ شہباز احمد خان نے ماضی میں ان کے خلاف متعدد ایف آئی آر درج کروائیں، لیکن ٹھوس ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔
مطیع الرحمن نے اپنے بیان میں کہا کہ اے آئی ایم آئی ایم اور اس کے کارکنوں کی سیاست کا دارومدار مسلم برادری پر ہے، لیکن وہ مسلم معیشت کو مضبوط کرنے والی کمپنیوں، جیسے کہ ہیرا گروپ، کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔ انہوں نے اسے "دوغلی سیاست” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ رویہ تاریخی غداروں میر صادق اور میر جعفر کی یاد دلاتا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہیرا گروپ کے حق میں آواز اٹھانے والے مسلمانوں کو جیل بھیجنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں، جو کہ مسلم برادری کے مفادات کے خلاف ہے۔ اے آئی ایم آئی ایم یا شہباز احمد خان کی جانب سے اس خبر کے حوالے سے فوری طور پر کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم، ماضی میں اسد الدین اویسی نے ہیرا گروپ کے مالیاتی معاملات پر نا صرف سوالات اٹھائے تھے بلکہ اپنے مفادات کیخلاف سمجھتے ہوئے اسے جڑ سے ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ 2012 کی ایف آئی آر اور اس کے بعد کی قانونی کارروائیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ اے آئی ایم آئی ایم ہیرا گروپ کے آپریشنز کو اپنے لئے ہلاکت خیز سمجھتی ہے۔
ہیرا گروپ آف کمپنیز، جو کہ "سود سے پاک” مالیاتی ماڈل پر کام کرتی ہے، ماضی میں متعدد تنازعات کا شکار رہی ہے۔ ای ڈی کی جانب سے کمپنی کی جائیدادوں کی نیلامی کے اقدامات کو سرمایہ کار غیر قانونی قرار دیتے ہیں، یہ تنازع نہ صرف ہیرا گروپ اور ای ڈی کے درمیان قانونی جنگ کو اجاگر کرتا ہے بلکہ مسلم برادری کے اندر سیاسی اور معاشی مفادات کے ٹکرأو کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ ایک طرف ہیرا گروپ کے حامی اسے مسلم معیشت کے لیے ایک مثبت اقدام قرار دیتے ہیں، اسد الدین اویسی اور ان کی پارٹی کے کردار پر سوالات اٹھ رہے ہیں کہ آیا وہ واقعی مسلم برادری کے مفادات کی نمائندگی کر رہے ہیں یا اپنی سیاسی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے ایسی کمپنیوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔اس وقت صورتحال غیر واضح ہے کہ آیا ای ڈی مطیع الرحمن کے خلاف شہباز احمد خان کی اپیل پر کوئی کارروائی کرے گی یا نہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹھوس ثبوتوں کے بغیر کسی کو گرفتار کرنا مشکل ہو گا، لیکن اس تنازع سے حیدرآباد اور دیگر علاقوں میں سیاسی گرما گرمی بڑھ سکتی ہے۔ مسلم برادری کے اندر اس معاملے پر منقسم رائے سامنے آ رہی ہے، اور یہ دیکھنا باقی ہے کہ ہیرا گروپ کے سرمایہ کار اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کیا حکمت عملی اپناتے ہیں۔