غالب اکیڈمی کی نثری نشست
گزشتہ روز غالب اکیڈمی نئی دہلی میں ماہانہ نثری نشست کا اہتمام کیا گیا۔ جس کی صدارت ڈاکٹر جی آر کنول نے کی۔ انھوں نے کہا کہ دہلی کی سڑکوں پر افسانے مل جاتے ہیں۔کہانی وہ ہے جو آپ کے کردار کو بلند کرے اور علم میں اضافہ کرے۔ چودھویں صدی میں انگریزی میں سب سے پہلے جیفری چوسر نے کینٹربری ٹیلس کے نام سے بہت سی کہانیاں لکھیں۔ان کہانیوں پر فلمیں بھی بنیں۔اردو میں کہانی کی ابتدا بہت بعد میں ہوئی سب سے اہم نام پریم چند کا ہے۔ آج بھی بہت اچھی کہانیاں لکھی جارہی ہیں۔ آج سب نے اچھی کہانیاں پڑھیں۔نعیمہ جعفری، رخشندہ روحی،عشرت ظہیر،سیما کوشک نے اپنے اپنے انداز میں اچھی کہانیاں پیش کیں۔سب کا محور عشق تھا۔ نعیمہ جعفری نے اپنی کہانی کشش میں دوشادی شدہ بچے والے ماں باپ اور مختلف مزاج کے ہونے کے باوجود ایک رشتے میں بندھ جاتے ہیں۔اس سے بچوں کو اپنی آزاد زندگی بسر کرنے میں آسانی ہوتی ہے۔ میاں بھی محبت کی اس ڈور میں بندھ جاتے ہیں جسے ہنس اور ہنسنی کی جوڑی،رادھا اور شام کی جوڑی بنا دیتی ہے۔ڈاکٹر رخشندہ روحی نے کثیر المیہ کی کہانی خوبصورت انداز میں پیش کرکے سامعین کو غور سے سننے پر مجبور کردیا۔سیما کوشک کی کہانی پاگل نے سامعین کو محظوظ کیا۔ عشرت ظہیر نے وائرس کے عنوان سے کہانی پیش کرتے ہوئے دو طالب علموں کی محبت کی داستان پیش کی۔سیما کوشک کی کہانی بھی پسند کی گئی۔۔عزہ معین نے وقت،ڈاکٹر شہلا احمد نے طوفان جو آنا تھا آکر جانا تھا،شگفتہ سلیم نے ایمان کی قیمت کے عنوان سے کہانی پیش کی۔ڈاکٹر شاداب تبسم نے اس وقت جب خواتین نام مخفی رکھ کر شاعری کرتی تھیں اور عصر حاضر کی شاعرہ نور جہاں ثروت تک کی احتجاجی شاعری کا جائزہ لیا۔ڈاکٹر شاہد حبیب نے شاہ تراب علی قلندر:حیات اور روحانی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ خانقاہ کاظمیہ کاکوری ایک اہم ادارہ اور صوفیانہ علوم کا خزانہ تھا۔ شاہ تراب علی قلندر کی شاعری عاشق حقیقی اور کلاسیکی روایت کی پاسداری کرتی ہے اس موقع پر ڈاکٹر عقیل احمد نے اپنے مضمون میں کہاکہ حکیم عبد الحمید نے بہت سے تعلیمی و فلاحی ادارے قائم کئے۔ان کے منصوبے اور بھی تھے جو ہنوز منظر عام پر نہیں آسکے یا ادھورے رہ گئے۔
نشست میں شوکت مفتی، ابو نعمان، شری کانت کوہلی،شاداب حسین،کمال الدین،انوپما سری واستو، پروین ویاس،احترام صدیقی، نتین چڈھا، سچن چوہان،خضر اسلام اور دیگر معزز حضرات نے شرکت کی۔