ایران کے سپریم لیڈر نے حالیہ حکومت مخالف مظاہروں میں گرفتار کیے گئے "دسیوں ہزار” قیدیوں کے لیے قید کی سزاؤں کو معاف یا کم کرنے کی اجازت دے دی ہے۔ الجزیرہ میں شائع خبر کے مطابق اتوار کے روز آیت اللہ علی خامنہ ای کی طرف سے منظور کردہ معافی شرائط کے ساتھ سامنے آئی۔ سرکاری میڈیا رپورٹس میں اعلان کردہ تفصیلات کے مطابق اس اقدام کا اطلاق ایران میں قید متعدد دوہری شہریت والے لوگوں پر نہیں ہوگا۔سرکاری خبر رساں ایجنسی ’ارنا‘ نے رپورٹ کیا کہ جن لوگوں پر "زمین پر بدعنوانی” کا الزام ہے ان کو اس میں کوئی چھوت نہیں ملے گی ۔ واضح رہے اس الزام میں ملوث کچھ مظاہرین میں سے چار کو پھانسی دے دی گئی ہے۔ نہ ہی اس کا اطلاق ان لوگوں پر ہوگا جن پر "غیر ملکی ایجنسیوں کے لیے جاسوسی” کا الزام ہے اور نہ ہی "اسلامی جمہوریہ کے مخالف گروہوں سے وابستہ ہو”۔گزشتہ ستمبر میں ملک کی مورالٹی (اخلاقیات) پولیس کی حراست میں ایک نوجوان ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران میں مظاہرے پھیل گئے۔ 22 سالہ نوجوان کو اسلامی لباس کے ضابطوں کی خلاف ورزی پر گرفتار کیا گیا تھا۔ واضح رہے زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے ایرانیوں نے مظاہروں میں حصہ لیا، جو کہ 1979 کے انقلاب کے بعد سے ایران کی حکومت کے لیے سب سے بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کی نیوز ایجنسی کے مطابق، مظاہروں کے سلسلے میں تقریباً 20,000 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے، جن پر حکام نے ایران کے "غیر ملکی دشمنوں” پر اشتعال انگیزی کا الزام لگایا ہے۔