ایران اور صہیونی حکومت کے درمیان جاری عروج پر ہے۔ ایران کے کامیاب میزائل حملوں کے بعد اسرائیل شکست کے دہانے پہنچ گیا ہے۔ صہیونی وزیراعظم نتن یاہو نے ایران ی حملوں کے آغاز سے ہی جنگ بندی کے لیے علاقائی ملکوں سے مدد مانگنا شروع کر دی تھی اور اب وہ امریکہ اور فرانس سمیت دیگر مغربی ممالک کو بھی ایران اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کے لیے آگے لا رہے ہیں۔
صہیونی قابض اور طفل کش حکومت نے جمعہ کی صبح ایران پر حملے کیے۔ ان کا مقصد ایرانی اعلیٰ فوجی کمانڈروں کو شہید کر کے برتری حاصل کرنا اور اپنی کامیابی کو یقینی بنانا تھا۔ لیکن ہمیشہ کی طرح ان کی حکمت عملی ناکام ہوئی اور رہبر انقلاب کی رہنمائی سے شہادتوں کے فوراً بعد نئے کمانڈر مقرر کیے گئے اور 24 گھنٹوں سے بھی کم وقت میں صورتحال ایران کے حق میں پلٹ گئی۔رہبر انقلاب کے واضح اور دوٹوک حکم کے بعد ایرانی مسلح افواج نے "وعدہ صادق 3” آپریشن کا آغاز کیا جس سے صہیونی رہنما حیران رہ گئے۔ ان کے جرائم کے جواب میں ایران کی تباہ کن کارروائیاں جاری رہیں اور ہر روز دشمن کو سخت جوابی حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔صہیونیوں کی خباثت یہاں تک پہنچی کہ انہوں نے ایرانی سرکاری ٹی وی پر بھی حملہ کیا، جس کا مقصد عوام میں خوف پھیلانا تھا، مگر ٹی وی اینکر سحر امامی کی بہادری نے اس حملے کو قومی فخر اور اتحاد میں بدل دیا۔سپاہ پاسداران انقلاب اور ایرانی آرمی کے کامیاب جوابی حملوں کے بعد نتن یاہو امریکہ اور فرانس سمیت مغربی ممالک کو ثالثی کے لیے آگے لارہے ہیں۔ اسی تناظر میں فرانسیسی صدر میکرون نے کہا کہ ہم ایران کے ساتھ سنجیدہ جوہری مذاکرات میں واپسی کے لیے تیار ہیں۔ ہم جنگ بندی چاہتے ہیں اور ایران کے جوہری پروگرام پر مذاکرات دوبارہ شروع کیے جانے چاہئیں۔ اگر جنگ بندی طے پاتی ہے تو یورپی ممالک مذاکرات میں شرکت کے لیے تیار ہیں۔امریکہ نے بھی ایرانیوں سے ملاقات کی پیشکش کی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا ہوتا ہے۔ ٹرمپ نے جی-7 رہنماؤں کو بھی اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی کے مذاکرات سے آگاہ کر دیا ہے۔
دوسری جانب، گروپ 7 کے رہنماؤں نے اگرچہ صہیونی حکومت کے ایران پر حملے کی مذمت نہیں کی، تاہم انہوں نے خطے میں کشیدگی میں کمی کی خواہش ظاہر کی۔ انہوں نے ایک بیان میں امید ظاہر کی کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگ بندی مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں کمی کا سبب بنے گی، اور اس کے نتیجے میں غزہ میں بھی جنگ بندی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
امریکی ویب سائٹ آکسیوس نے بھی ٹرمپ کی زبانی تہران پر دھمکی آمیز الفاظ کے بعد خبر دی ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے اور جنگ بندی پر مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیم نے اس ہفتے کے لیے ایران کے ساتھ جوہری معاہدے اور جنگ بندی پر بات چیت کی تجویز دی ہے۔ اس ملاقات کا مقصد ایک سفارتی پیش رفت کا جائزہ لینا ہے، جس میں جوہری معاہدہ اور ایران و اسرائیل کے درمیان جنگ کا خاتمہ شامل ہوگا۔ان تمام حالات سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ صہیونی حکومت اور خود نتانیاہو ایرانی قوت و اقتدار کا پیغام بخوبی سمجھ چکے ہیں اور جانتے ہیں کہ اس مسلط شدہ جنگ کا تسلسل جعلی صہیونی حکومت کی یقینی شکست کا باعث بنے گا۔ اسی لیے وہ مختلف ممالک سے مدد کی بھیک مانگ رہے ہیں تاکہ اس یقینی شکست سے بچ سکیں۔جرائم پیشہ نتن یاہو کو چاہئے کہ دوسروں سے درپردہ التجائیں کرنے کے بجائے، اپنی کھلی اور ذلت آمیز شکست کو بہادری سے تسلیم کریں اور براہ راست ایران سے جنگ بندی کی درخواست کرے، شاید کچھ بہتری ہو جائے۔بہر حال ہمیں تاریخ سے سبق لینا چاہیے۔ چنگیز خان بھی پہلے حملے میں بخارا فتح نہیں کر سکا تھا۔ پھر اس نے ایک چالاکی کے تحت خط لکھا: "جو ہم سے صلح کرے گا، محفوظ رہے گا۔” عوام دو گروہوں میں تقسیم گئے: کچھ نے لڑائی جاری رکھی اور کچھ اپنی جان بچانے کے لیے دشمن سے جا ملے۔ اس کے بعد چنگیز نے دوبارہ لکھا: "اپنے ہم وطنوں سے لڑو، شہر کی حکومت اور مال تمہیں ملے گا۔”
غداروں نے مدافعین کو شکست دی اور شہر کے دروازے کھول دیے۔ لیکن جب منگول شہر میں داخل ہوئے تو چنگیز نے حکم دیا کہ وہ سب لوگ بھی قتل کر دیے جائیں جنہوں نے صلح کی تھی۔ جب اس سے پوچھا گیا:”کیا ہم نے ان سے معاہدہ نہیں کیا تھا؟”تو اس نے کہا: "جو اپنے خون سے غداری کرے گا، وہ کبھی اجنبی کے ساتھ وفادار نہیں رہے گا۔”